امریکا میں 1869ء میں آنے والے برفانی طوفان نے کئی ریاستوں میں تباہی مچائی اور معمولات زندگی کو بری طرح متاثر کیا تھا، اس وقت برفانی طوفان کو تاریخ کا بدترین طوفان قرار دیا گیا تھا، جس نے زندگی کا پہیہ روک دیا تھا۔ امریکی قوم نے 1869ء کے برفانی طوفان سے بہت کچھ سیکھا اور حکمت عملی اپناتے ہوئے آنے والے طوفانوں کیلئے بھرپور تیاریاں کی گئیں اور ماہرین نے منصوبہ بندی تیار کی، مجھے یاد ہے 1996ء میں بھی تقریباً اسی نوعیت کا طوفان تھا، جس نے امریکا کی درجنوں ریاستوں کا نظام مفلوج کر کے رکھ دیا تھا، اس طوفان نے سب سے زیادہ بجلی کے نظام کو متاثر کیا تھا، جس میں بجلی کے پولز کے علاوہ بجلی کے تار ٹوٹ کر بکھر گئے تھے، جن ریاستوں میں برفانی طوفان نے تباہی نہیں مچائی تھی، وہاں سے ہنگامی بنیادوں پر ٹیمیں متاثرہ ریاستوں میں بجلی کا نظام بحال کرنے کیلئے پہنچیں، مجھے یاد ہے میرے گھر کی بجلی صرف 5 گھنٹے کیلئے گئی تھی۔ جبکہ تمام نظام کو حرکت میں لانے کیلئے تقریباً 2 سے 3 دن لگے تھے۔ ماہرین کے مطابق 1996ء کا طوفان اپنے پیچھے 4.6 ملین ڈالرز کے نقصانات چھوڑ گیا، اگرچہ امریکی قوم درجنوں خطرناک طوفانوں کا سامنا کر چکی ہے۔ طوفان جب بھی تباہی چھوڑ کر جاتا ہے، حکومت عوام کے تعاون سے بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ تعمیرنو کا کام کرکے اس بات کی یقین دہانی کرتی ہے کہ آئندہ آنے والا طوفان کم سے کم تباہی مچائے اور نظام زندگی کے مفلوج ہونے کے امکانات بھی کم ہوں۔ امریکا میں تعمیرات کرتے وقت اس بات کا سب سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے کہ طوفان آنے کی صورت میں کم سے کم جانی نقصان ہو۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر ان درجنوں برفانی طوفان کی تباہی پر نظر ڈالی جائے تو مرنے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔
زندہ قومیں وہ ہوتی ہیں جو طوفانوں کا سامنا کر کے سیکھتی ہیں اور مستقبل کے لئے دیرپا مثبت لائحہ عمل تیار کرتی ہیں۔ ابھی تھوڑے عرصہ پہلے نیو یارک ٹائمز میں کراچی اور تھر کی صورتحال پر رپورٹس میری نظروں سے گزریں۔ میرے ذہن میں سوال آیا کہ قوم اور لوگوں کے ہجوم میں کیا فرق ہوتا ہے؟ اس کا فیصلہ آپ کریں۔ کراچی میں پانی کی شدید قلت، پینے کے پانی میں سیوریج کے پانی کی ملاوٹ اور اس پر حکومت کا یہ کہنا کہ سب اچھا ہے، انتہائی بے حسی کا مظاہرہ ہے۔ ماہرین کے مطابق کراچی جیسے آبادی والے شہر کیلئے جو 70 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے، صفائی کیلئے صرف 325 افراد پر مبنی ٹیم کا ہونا شہریوں کے ساتھ گھناؤنا مذاق ہے۔ ماہرین کے مطابق اس شہر کیلئے کم از کم 3000 افراد پر مبنی ٹیم ہونی چاہئے، جس کے پاس جدید صفائی کرنے والی مشینری ہونی چاہئے۔ جبکہ غلاظت اگلتے گٹروں کیلئے ہنگامی بنیادوں پر صفائی کے ساتھ ساتھ نئی سیوریج لائن ڈالنے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ تصور کریں 350 km لمبی سیوریج لائن جس پر 250.000 گٹر کے ڈھکن لگے ہونے چاہئیں، آدھے گٹر ایسے ہیں، جو ڈھکن سے محروم ہیں۔ ایک طرف سڑکوں پر سیوریج کے پانی نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور گٹر کے ڈھکن کی غیر موجودگی کے باعث لوگ ان گٹروں میں گر کر مر رہے ہیں۔ ان میں اکثریت بچوں اور بوڑھوں کی ہے۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیروں کے باعث بیماریاں پھوٹ رہی ہیں۔ گٹروں کے پانی کے ابلنے کے نتیجے میں گلیاں محلے نالوں کا منظر پیش کرتے ہیں، جس میں گر کر درجنوں بچے زندگی کی بازی ہار گئے۔ امریکی اخبارات میں جب اس نوعیت کی خبریں شائع ہوتی ہیں تو پاکستانی کمیونٹی کی اکثریت کو مقامی لوگوں سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آخر سندھ حکومت پستی کی کس حد پر آکر رکے گی؟ آخر بے حسی کے حصار سے کب باہر آئیں گے؟1869ء سے حالیہ برفانی طوفان تک امریکا درجنوں خطرناک طوفانوں کا سامنا کر چکا ہے۔ جب امریکا برفانی طوفان کی زد میں ہوتا ہے تو بظاہر لگتا ہے کہ معمولات زندگی واپس آنے میں مہینوں لگ سکتے ہیں، لیکن امریکی قوم نے ہر قدرتی آفات اور برفانی طوفانوں سے بہت کچھ سیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ دو سے تین دنوں میں طوفان کے اثرات اپنے وجود کھو بیٹھتے ہیں۔ انتظامیہ ان طوفانوں میں سے خیر نکالتی ہے۔ برف کو محفوظ کر کے اس کا صاف پانی بنانے کے بعد اسے استعمال میں لایا جاتا ہے اور پھر مستقبل میں آنے والے طوفانوں کیلئے نئی منصوبہ بندی شروع کر دیتے ہیں۔
امریکا کی خارجہ پالیسی پر تنقید کی جا سکتی ہے اور اعتراضات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں۔ مجھے 25 ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میری نظر میں امریکا کی داخلہ پالیسی مثالی ہے، جو اپنے ہر شہری کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ آج کل امریکا میں برفانی طوفان نے نظام کو دھرم بھرم کرکے رکھ دیا ہے۔ برفباری کے باعث سب سے زیادہ 20 ریاستیں متاثر ہوئی ہیں۔ ایمرجنسی گاڑیاں ہائی وے اور سڑکوں کو صاف کرنے میں مصروف ہیں۔ جبکہ امریکا کے وہ بڑے ہائی وے جہاں پر گاڑیوں کا سمندر ہوتا تھا، سنسان پڑی ہیں۔ امریکا میں یہ کوئی پہلا برفانی طوفان نہیں ہے۔ 1996ء میں بھی اسی نوعیت کا نقصان ہوا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکی قوم انتہائی منظم ہے۔ اپنی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کر کے ایسے طوفانوں سے احسن طریقے سے نکل جاتی ہے۔ واضح رہے اس برف کو امریکی حکام پانی میں بدل کر ذخیرہ کر دیں گے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عالمی موسمیاتی ماہرین کے مطابق آنے والے چند برسوں میں افریقہ اور ایشیاء میں پانی کی شدید قلت خشک سالی کا سبب بنے گی، جس سے خوراک کا بحران پیدا ہو جائے گا۔ عالمی موسمیاتی سوسائٹی کے ماہرین کے مطابق آب و ہوا میں تبدیلی وارمنگ سے دنیا بھر میں پانی قلت شدید بڑھ جائے گی اور سال 2020ء تک کم از کم 2.8 ارب افراد پانی کی شدید قلت کے شکار ہوں گے، جبکہ اس وقت 1.6 ارب افراد قلت آب کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایشیاء اور مشرقی وسطیٰ کے وسیع علاقے یورپ، امریکا اور آسٹریلیا کے بعض مقامات پیاسے ہو جائیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا خوراک کی ایک بہت بڑی قلت کے دہانے پر موجود ہے، جس سے بہت بڑی آبادی متاثر ہوگی۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے عالمی خوراک (ایف اے او) کا کہنا تھا کہ اس سال ایل نینو کی وجہ سے جنوبی افریقہ میں پودوں کی بوائی میں تاخیر ہوئی اور فصل خراب ہونے سے غذائی قلت پیدا ہوئی تھی۔ جبکہ آئندہ سال بھی نینو کی تباہی جاری رہے گی۔ ایف اے او نے یہ بھی کہا کہ 2015ء میں پوری دنیا میں مکئی کی پیداوار میں 27 فیصد کمی ہوئی جو ایک خوفناک امر ہے، جبکہ صرف افریقہ کے ایک ملک ملاوی میں کھانے کی قلت کی یہ حالت ہے کہ 5 سال سے کم عمر 90 فیصد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت جگہ نقل مکانی پر مجبور ہے۔ جو قومیں حکمت سے کام نہیں لیتیں، خستہ حالی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭
Next Post