روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ آج سے پچاس سال قبل پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے لگایا تھا۔ اس کے بعد اس پارٹی نے ملک پر کم و بیش پانچ مرتبہ حکمرانی کی، لیکن یہ وعدہ پورا نہ ہو سکا۔ پورے پاکستان کو تو پیپلز پارٹی کی موروثی حکومت سہولت کیا فراہم کرتی، خود ان کے آبائی صوبے سندھ اور شہر لاڑکانہ کے لوگ نصف صدی بعد بھی روٹی، کپڑے اور مکان سے محروم ہیں۔ تھرپارکھر میں ہر ماہ سینکڑوں افراد، جن میں زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے، خوراک اور علاج کی کمی کے باعث لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ادوار میں غریبوں کی خدمت کے نام پر کئی پروگرام شروع کیے گئے اور ان کے لیے خطیر رقوم بھی مختص کی گئیں، جن کا بیشتر حصہ خورد برد کی نذر ہوتا رہا۔ عزت نفس کو مجروح کر کے بعض غریبوں کو کچھ دیا گیا تو وہ اتنا نہیں تھا کہ اس خاندان کے ایک فرد کی ضروری خوراک بھی پوری ہو سکے۔ ہزار دو ہزار روپے تو حکمران طبقوں کے ایک بچے کے یومیہ جیب خرچ سے بھی کم ہیں۔ یہ ادائیگی کر کے کوئی غریبوں سے ہمدردی کا دعوٰی کرتا ہے تو یہ ان کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، لیپ ٹاپ اسکیم اور غربت مٹاؤ مہم کے نام پر ماضی میں لوٹ کھسوٹ کر کے قومی خزانے کو شدید نقصان پہنچایا گیا، جبکہ ملک بھر میں غربت اور بے روزگاری کا آج بھی یہ حال ہے کہ کراچی، لاہور اور حیدر آباد جیسے شہروں میں سڑکوں کے کنارے، چوراہوں پر اور بازاروں میں بھکاریوں کے غول در غول نظر آتے ہیں۔ ان کی وجہ سے لوگوں کا کسی ایک جگہ بھی چند لمحے کے لیے رکنا ممکن نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان پچھلے حکمرانوں سے کوئی سبق حاصل کرنے کے بجائے انہی کے طریقے اختیار کر رہے ہیں، جبکہ انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد تبدیلی اور بہتر پاکستان جیسے نعروں کا سہارا لیا تھا۔ وہ تو ماضی کے حکمرانوں سے کئی قدم آگے بڑھ کر ملک میں مدینہ جیسے فلاحی معاشرے کے قیام کا عزم ظاہر کرتے ہیں۔ گزشتہ سات ماہ کے دوران وہ اہل وطن کو شدید مایوسی، غربت، بے روزگاری، بدامنی اور بد انتظامی سے نجات دلانے میں ناکامی کے بعد غربت ختم یا کم کرنے کا نعرہ، وعدہ اور دعوٰی لے کر سامنے آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روٹی، کپڑا، مکان، صحت اور تعلیم عوام کے بنیادی حقوق ہوں گے، جس کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے گی۔ غربت میں خاتمے کے لیے سب کو مل کر جہاد کرنا ہوگا۔ انہوں نے تخفیف غربت کے پروگرام بنام ’’احساس اور کفالت‘‘ شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پس ماندہ اور کمزور طبقات کے لیے اسی ارب روپے کا اضافہ کر کے اسے دو سال میں ایک کھرب بیس روپے تک بڑھایا جائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے علم میں یہ بات لانی ضروری ہے کہ پاکستان کے عوام اب ان سے ’’گا، گی، گے‘‘ کی گردان سننا نہیں چاہتے۔ تحریک انصاف کی اب تک کی ناقص حکومتی کارکردگی کے تناظر میں عوام ان کے وعدوں پر اعتبار کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ وہ اپنے لیے مخصوص رعایتوں کے نام پر کسی کو مزید لوٹ کھسوٹ کی اجازت بھی نہیں دیں گے۔
غربت کم کرنے سے پہلے ہی ایک نئی وزارت کا اعلان یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ قومی خزانے پر مزید بوجھ ڈالنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں صرف چھ ارکان کی اکثریت سے قائم موجودہ مخلوط حکومت میں وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کی بڑی فوج ظفر فوج پہلے ہی موجود ہے، جبکہ اقتدار میں شریک بعض جماعتیں مزید وزارتوں کے لیے دباؤ اور بلیک میلنگ کے حربے استعمال کر رہی ہیں۔ ایسے میں ملک سے غربت کا خاتمہ ہوگا یا اضافہ غربت میں کمی کے نام پر کابینہ میں ایک اور وزارت کا بوجھ ڈالنا کس افلاطون کا مشورہ ہے، جبکہ ماضی میں اس طرح کی فضول مشقوں کا ملک یا غریب عوام کو ذرہ برابر فائدہ نہیں ہوا۔ اہل دانش و بینش کا کہنا ہے کہ سطحی اور نمائشی اقدامات کرنے اور قومی خزانے پر لایعنی بوجھ بڑھانے کے بجائے حکومت کو ملک بھر میں انصاف اور مساوات کا ایسا نظام قائم کرنا چاہئے کہ امیروں اور غریبوں سب کو بلا امتیاز سستی اشیائے ضرورت علاج معالجے، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولتیں ہر وقت اور ہر جگہ میسر آسکیں۔ مخصوص طبقوں کے لیے شروع کیے جانے اکثر پروگرام بالآخر ناکام اور فراڈ ثابت ہوتے ہیں۔ ان سے مقتدر و متمول طبقے اور بااختیار لوگ ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے غربت مٹاؤ پروگرام ’’احساس اور کفالت‘‘ کی تقریب اجراء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک سے غربت مٹانا جہاد ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے، جو اسلام کے نام پر بنا۔ اسے دنیا میں ایک مثالی ملک بننا تھا، لیکن ہم ریاست مدینہ کے اصولوں کے خلاف چلے گئے۔ ریاست مدینہ کی طرف واپس جانے کے لیے ’’احساس اور کفالت‘‘ کا پروگرام پہلا قدم ہے۔ عمران خان کا ماضی اور حال پوری قوم اور ساری دنیا کے سامنے ہے، لہٰذا ان سے یہی مؤدبانہ درخواست کی جاسکتی ہے کہ کم از کم وہ تو ’’ریاست مدینہ‘‘ کے الفاظ زبان پر لانا بند کردیں۔ ’’احساس اور کفالت‘‘ کو پہلا قدم قرار دینے والے وزیر اعظم سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر ان کے دل میں احساس کا جذبہ واقعی اجاگر ہوگیا ہے تو وہ اپنی ذاتی زندگی اور حکومتی ارکان کے معمولات پر نظر ڈال کر دیکھیں اور اصلاح کا آغاز وہاں سے کریں۔ یہی پہلا قدم غریبوں کی کفالت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ’’ہم‘‘ ریاست مدینہ کے اصولوں کے خلاف چلے گئے ہیں (بلکہ ان سے ہٹنے کا بھی کوئی ارادہ نہیں رکھتے)۔ ان کے خیال میں یورپ نے مدینہ کی ریاست کے اصول اپنائے اور وہ آگے نکل گئے، وہاں کتے بھی بھوکے نہیں مرتے۔ وزیراعظم عمران خان نے اور بھی کئی چکنی چپڑی باتیں کیں، لیکن ان سب کی ان کے پاس اپنی کوئی نظیر ہے نہ مثال۔ ان کی ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ یورپی ممالک نے مدینہ کی ریاست کے اصول اپنائے اور وہ آگے نکل گئے۔ گویا کہ وہ بھی ان کی طرح ریاست مدینہ کے نام پر خود ساختہ باتیں گھڑ کر اور انہیں ریاست مدینہ کے اصول قرار دے کر پانچ سال تک حکمرانی کریں گے۔ قوم ان سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ایک بار کھل کر بتا دیں کہ ان کا اصل ماڈل کیا ہے؟ نبی کریمؐ کا قائم کردہ معاشرہ، جس کی جانب ایک قدم بھی اٹھانے کے آثار ان کی حکومت میں دکھائی نہیں دیتے، یا پھر یورپ کا نمونہ جو ان کے خیال میں ریاست مدینہ کے اصولوں پر قائم ہے؟ حیف، صد حیف! ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post