تثلیث سے توحیدتک

0

محترمہ رحیمہ گرفتھمس (RAHIMA GRIFFITHS) برطانیہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ وہ باہمت خاتون ہیں، جنہوں نے گزشتہ صدی کے تیسرے عشرے میں اس وقت اسلام قبول کیا، جب انگلستان میں ایسی مثالیں بہت کم تھیں اور شاید اس وقت تک کوئی انگریز خاتون مسلمان نہ ہوئی تھی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان پر کیا گزری، اس کی جھلکیاں خود محترمہ کے اس مضمون میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
چند ماہ پہلے تک میرا تعلق عیسائی مذہب سے تھا، لیکن خدا کا شکر ہے اس نے اپنے فضل سے مجھے اسلام کو سمجھنے اور قبول کرنے کی سعادت عطا فرمادی۔ اس عنایت پر میں اس کا جس قدر شکر ادا کروں، کم ہے۔
میری عمر چھبیس برس ہے۔ میں لندن کے ایک عیسائی خاندان میں پیدا ہوئی اور اسی ڈھب پر عیش پرستانہ زندگی گزارنے اور ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کی کوشش کررہی تھی، جس پر ہمارے ملک کا بیشتر طبقہ کار بند ہے۔ مذہب عیسوی سے روایتی اور خاندانی وابستگی کی وجہ سے میں چرچ میں چلی جاتی تھی، لیکن میرے ذہن نے عیسائیت کے عقائد کو کبھی قبول نہیں کیا، نہ اس مذہب نے مجھے کبھی سکون سے آشنا کیا… بظاہر ساری سہولتوں کے باوجود زندگی سچے اطمینان اور قلبی راحت سے محروم تھی اور میں ذہنی طور پر اپنے آپ کو خلا میں بھٹکتا ہوا محسوس کرتی تھی۔
دل کو بہلانے کی خاطر میں سیاحت پر چل نکلی اور مصر پہنچ گئی۔ ایک ٹورسٹ کی حیثیت سے میں نے قاہرہ کی مشہور مسجد محمد علی کو بھی دیکھا۔ میں مسجد کے جلال و جمال سے بھی متاثر ہوئی اور سب سے زیادہ خوش قسمتی یہ ہوئی کہ مسجد کو ان اوقات میں دیکھنے کا موقع ملا، جب لوگ باجماعت نماز ادا کررہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ امیر و غریب پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں اور یہاں اس طرح کا کوئی امتیاز نہیں ہے، جس طرح کا مظاہرہ چرچ میں نظر آتا ہے، لیکن امیر لوگوں کے لئے الگ نشست گاہیں ہیں اور غریبوں کے لئے الگ ہیں۔ پھر ان لوگوں میں، میں نے اخلاص اور باہمی محبت کی ایک ایسی فضا دیکھی، جس کی کوئی نظیر یورپ کی زندگی میں نظر نہیں آئی تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ اپنے معبود کے لئے ان کا احترام اور خوف بے اختیار دل پر اثر کرتا تھا۔ نماز کے دوران ’’تکبیر‘‘ کی صدا دل و دماغ کو مسحور کئے جا رہی تھی۔ میں اس سارے منظر کو دیکھ کر ورطۂ حیرت میں ڈوب گئی۔
اس بات کو چار پانچ برس بیت گئے۔ اس بار میں لندن کی ووکنگ مسجد میں چلی گئی اور ایک بار پھر اسی ذہنی کیفیت سے دوچار ہوئی، جس سے قاہرہ کی مسجد محمد علی میں ہوئی تھی۔ وہی سکون اور راحت کا غیر معمولی احساس اور وہی اعلیٰ اخلاقی قدروں کا روح پرور نظارہ… نماز کے بعد ایک صاحب نے قرآن کی پہلی سورت کے حوالے سے ایک لیکچر دیا اور مجھے پہلی بار اسلام اور قرآن کی تعلیمات کا تعارف حاصل ہوا۔ پتہ چلا کہ یہ سورت دراصل ایک دعا ہے۔ ہر مسلمان کے دل کی دعا، ہر انسان کی دعا… یہ بھی اندازہ ہوا کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے، اخوت اور محبت اس کا جوہر ہے اور یہ تمام نسلی، لسانی اور علاقائی امتیازات سے بالاتر ہے۔ توحید اسلام کی گویا جان ہے اور خدائے واحد کے سوا کوئی بھی کسی درجے میں عبادت کا مستحق نہیں ہے۔ مسلمان سارے پیغمبروں کی یکساں عزت کرتے ہیں اور اسلام صحیح معنوں میں امن اور اخوت کا علمبردار ہے۔ اسلام کا مطلب ہی امن اور سلامتی ہے۔
عیسائیت اور یورپی اقوام کے حوالے سے مجھے یہ سب کچھ بہت ہی عجیب لگا۔ یہ میرے لئے ذہنی اعتبار سے بالکال نیا تجربہ تھا۔ چنانچہ میں نے تہیہ کرلیا کہ اسلام کے بارے میں مزید معلومات حاصل کروںگی۔ اسلام مجھے ایک قابل عمل مذہب محسوس ہوا اور اندازہ ہوا کہ فکر اور حوصلے کی جو وسعت اسلام میں ہے، اس سے عیسائیت محروم ہے۔ چنانچہ میں نے اسلام کے بارے میں ضروری کتابیں حاصل کئیں، قرآن پاک کا ایک نسخہ مسجد سے مل گیا اور امام صاحب نے میری رہنمائی شروع کردی۔ جہاں مشکل پیش آتی میں سوال کرتی، موصوف اس کا شافی جواب دے دیتے اور میں مطمئن ہو جاتی۔ تحقیق و تفتیش کا یہ سلسلہ تین ماہ تک چلا، حتیٰ کہ مجھے شرح صدر حاصل ہوگیا اور کلمۂ پڑھ کر اعلانیہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More