معارف القرآن

0

معارف و مسائل
دوسری صفت مہاجرین کی اس آیت میں یہ ذکر فرمائی ہے: یبتغون فضلا… یعنی ان کے اسلام میں داخل ہونے اور پھر ہجرت کرکے مال و وطن کو چھوڑنے کی کوئی دنیاوی غرض نہ تھی، بلکہ صرف خدا کا فضل و رضا مطلوب تھا، جس سے ان کا کمال اخلاص معلوم ہوا۔ لفظ فضل عموماً دنیوی نعمت کے لئے اور رضوان آخرت کی نعمت کے لئے بولا جاتا ہے، اس لئے مفہوم یہ ہوا کہ ان حضرات نے اپنے تمام سابقہ اسباب عیش مکان، جائیداد، وغیرہ کوتو چھوڑ دیا، اب دنیاوی ضروریات بھی اور آخرت کی نعمتیں بھی صرف اسلام کے سائے میں مطلوب ہیں اور دنیا کی ضروریات زندگی بھی خدا و رسولؐ کی رضا کے تحت حاصل کرنا مقصود تھا۔
تیسرا وصف حضرات مہاجرینؓ کا یہ بیان فرمایا:
وینصرون… یعنی یہ سب کام انہوں نے اس لئے اختیار کئے کہ خدا اور اس کے رسولؐ کی مدد کریں، خدا کی مدد سے مراد اس کے دین کی مدد ہے، جس میں انہوں نے حیرت انگیز قربانیاں پیش کیں۔
چوتھا وصف ان کا اولئک ھم الصٰدقون یعنی یہی لوگ قول و عمل کے سچے ہیں، کلمہ اسلام پڑھ کر جو عہد خدا و رسولؐ کے ساتھ باندھا تھا، اس میں بالکل پورے اترے، اس آیت نے تمام صحابہ مہاجرینؓ کے صادق ہونے کا عام اعلان کردیا، جو شخص ان میں سے کسی کو جھوٹا قرار دے، وہ مسلمان نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ اس آیت کا منکر ہے۔ روافض جو ان حضرات کو منافق کہتے ہیں، یہ اس آیت کی کھلی تکذیب ہے۔ ان حضرات مہاجرینؓ کا خدا کے رسولؐ کے نزدیک یہ مقام تھا کہ اپنی دعائوں میں حق تعالیٰ سے ان فقراء مہاجرین کا وسیلہ دے کر دعا فرماتے تھے۔ (کما رواہ البغوی، مظہری) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More