دھوکہ (حصہ اول)

0

ناصر رضوان خان ایڈووکیٹ
’’السلام علیکم، ایک خاتون کو تمہارے پاس بھجوا رہا ہوں، ان کی بات توجہ اور ہمدردری سے سننا اور قانونی مشورہ دینا۔ وہ تمہارے پیک اپ سے پہلے تمہارے دفتر پہنچ جائیں گی۔ میرا ذاتی کیس سمجھنا اور فیس میں جس قدر ممکن ہو رعایت کر دینا۔ ادائیگی کا شیڈول ان کی سہولت پر طے کرنا۔‘‘ اس کے بعدفون کی لائن منقطع ہوگئی۔ میں سمجھ گیا کہ خاتون صاحب حیثیت ہوں گی۔ کام بہت تھا، اگلے دن ہائی کورٹ کے دو مقدمات کی پیشی تھی، اس لئے میں فوراً ہی سامنے رکھی فائلوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ تقریباً ساڑھے چار بجے کشور کمار نے اطلاع دی کہ ایک کلائنٹ ملنا چاہتی ہیں، میں نے کہا بھجوا دو، اگلے ہی لمحے وہیل چیئر پر ایک خاتون اپنے اٹینڈنٹ کی مدد سے کمرے داخل ہوئیں اور واضح الفاظ میں سلام کیا۔ ان کے اٹینڈنٹ نے بڑی مہارت سے میز کے گرد رکھی کرسیاں سرکا کر ان کی وہیل چیئر کیلئے جگہ بنائی۔ پہیوں میں بریکس لگائیں اور خاموشی سے انتظار گاہ میں جا کر بیٹھ گیا۔ اتنی دیر میں اس شعر کے مصداق ’’مہنگی ہیں گر کتابیں تو چہرہ پڑھا کرو‘‘ میں ان خاتون کی شخصیت کا اندازہ لگا رہا تھا۔ سیاہ عبائے میں ملبوس فوٹو لینس والا چشمہ لگائے وہ سنجیدہ مزاج اور کم گو لگ رہی تھیں اور میرا خیال ہے کہ ان کا چہرہ سادگی اور سچائی کا غماض تھا، میں نے وقت دیکھا عصر کی جماعت کھڑی ہونے میں ایک گھنٹے سے زیادہ تھا۔ میں اطمینان سے ان خاتون کی بات سن سکتا تھا۔ ’’جی فرمائیے کیا مسئلہ ہے؟‘‘ انہوں نے اپنا مسئلہ بیان کرنا شروع کیا۔ جوش جذبات اور غم سے ان کی آواز بھرا جاتی اور انہیں بار بار اپنا چشمہ اتار کر آنسو صاف کرنے پڑتے۔ وہ تقریباً بیس منٹ تک بولتی رہیں۔ میں نے کوئی بات اپنی یادداشت کیلئے نوٹ کی، نہ ان خاتون کو درمیان میں ٹوکا۔ بیان کے اختتام پر میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ اس میں قانونی مشاورت کی گنجائش ہے، نہ فریق ثانی کسی ایسے جرم کا مرتکب ہوا ہے کہ تعزیر پاکستان کے تحت اسے مجرم ثابت کیا جا سکے، عائد کردہ جرم بے شک خدا اور رسولؐ کے حکم کے مطابق ناقابل معافی تھے، لیکن دنیاوی عدالتوں میں جرم ثابت کرنے کیلئے جو شواہد درکار ہوتے ہیں، وہ سرے سے موجود ہی نہیں تھے، میں یہ بات کہہ نہیں سکا۔ کیونکہ وہ جس حوالے سے میرے پاس آئی تھیں، اس کا تقاضا تھا کہ میں ان کے مسئلے کے حل کیلئے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور تلاش کروں۔ فی الوقت میں انہیں کوئی مشورہ نہیں دے سکتا تھا۔ خدا نے مدد فرمائی اور میں نے ان سے کچھ وقت مانگا اور کہا کہ تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ اگر وہ پہلے دن سے لیکر آج تک گزرنے والے تمام واقعات رقم کر سکیں تو اس کی روشنی میں کوئی مفید اور قابل عمل مشورہ دے سکتا ہوں۔ ان خاتون نے یہ تمام واقعات لکھ کر مجھے بھیجنے کا وعدہ کر لیا۔
قارئین! ان خاتون نے جو کہانی مجھے بھجوائی، وہ میں من و عن آپ کی نذر کر کر رہا ہوں: ’’ولیمے کی تقریب کے اختتام پر میں اور میری بھاوج پارکنگ کی طرف جا رہے تھے تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: آپا شمی کا فون آیا تھا، وہ ایک رشتہ کے سلسلے میں آپ سے بات کرنا چاہ رہی تھی، مگر وہ اس وجہ سے جھجک رہی ہے کہ لڑکے کی پہلے شادی ہوئی اور چند بعد ختم ہوگئی، وہ شادی نہیں بلکہ ایک حادثہ تھا۔ باقی تمام کوائف لڑکے اور گھر والوں کے بہت اچھے ہیں۔ پہلی شادی کا سن کر میرا موڈ آف ہوگیا، جو میری بھاوج نے بھی محسوس کیا۔ آپا میں بھی شمی سے کہہ رہی تھی کہ آپ راضی ہوں گی۔ میں نے کہا حرج تو نہیں ہے شمی سے کہنا مجھے فون کرے اور خود ساری تفصیل بتائے۔ اگر شمی سمجھتی ہے کہ رشتہ مناسب ہے تو بات کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اگلے ہی دن شمی کا فون آگیا۔ اس نے بتایا کہ جن خاتون نے رشتہ کیلئے کہا ہے، میری ان سے حال ہی میں ملاقات ہوئی ہے۔ وہ ہفتہ وار خواتین کے تبلیغی اجتماعات میں ضرور آتی ہیں، کچھ ماہ پہلے ہی وہ امریکہ سے آئی ہیں اور تین ماہ بعد دوبارہ امریکہ واپس جائیں گی۔ وہ بیوہ خاتون ہیں اور وہ عین جوانی میں تین ننھے بچوں کے ساتھ بیوہ ہوگئی تھیں۔ بڑی بیٹی چھ سال کی جبکہ اکلوتا بیٹا صرف ڈھائی سال کا تھا۔ تھیں بھی وہ بیرون ملک جہاں ان کے شوہر کا ذاتی کاروبار تھا۔ ان کے شوہر اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور جاپان کی مشہور الیکٹرانک مصنوعات کے ڈیلر تھے۔ شادی کے محض سات سال بعد عین شادی کی سالگرہ والے دن جان لیوا دل کے دورے کے سبب داغ مفارقت دے گئے۔ انہوں نے بڑی مشقت اور جانفشانی سے بچوں کی پرورش کی۔ میں نے شمی سے پوچھا کہ ان کو یہ تفصیلات کس نے دیں تو انہوں نے بتایا کہ میرے بھائی ان کے بڑے داماد کے ساتھ ایک ہی ادارے میں کئی برس تک کام کرتے رہے ہیں اور ان دونوں میں اچھی دوستی ہے اور لڑکے کی پہلی شادی کا کیا قصہ ہے؟ میں نے سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ میرے بھائی بتا رہے تھے کہ ان خاتون کی خاصی جائیدادیں اور ایسٹس ہیں۔ ایک مکان وہ فروخت کرنا چاہتی تھیں اور اس کی ذمہ داری انہوں نے اپنے بیٹے کے سپرد کی۔ جب اس علاقے کے ایک سیاسی گروہ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے لڑکے کو اغوا کرکے گن پوائنٹ پر اس کا نکاح اپنی ایک لڑکی سے کروایا۔ تمام کاغذات اپنے قبضے میں کئے۔ چند ماہ میں جب لڑکے سے دستخط لیکر مکان وغیرہ لڑکی کے نام کرا لیا تو فوری طلاق کے کاغذات مکمل کراکے لڑکے کو چھوڑ دیا۔ تو کیا ان خاتون نے اس ظلم اور نا انصافی پر کوئی کارروائی نہیں کی؟ میں نے سوال کیا تو شمی کا جواب تھا کہ ایک تنہا عورت اتنے طاقتور گروہ کے سامنے کیا کر سکتی ہے۔ جیسے ہی اس کے بیٹے کو ان ظالموں سے رہائی ملی، اس نے فوراً اس کو بیرون ملک بھجوا دیا۔ فون کال کافی لمبی ہوگئی تھی۔ اس لئے شمی نے کہا کہ باقی تمام باتیں ان خاتون سے بالمشافہ ملاقات پر کر لیجئے گا اور ان تمام باتوں کے علاوہ کوئی اور بات اس کے علم میں نہیں ہے۔
اگلے ہی روز ان خاتون کا فون آگیا۔ انہوں نے فون پر جو بات کی، اسے فون کی کھڑکھڑاہٹ، ان کی گفتار کی رفتار اور اپنی سماعت میں نقص کی وجہ سے واضح نہ سن سکی اور محض اخلاقیات کے پیش نظر ان سے کہا کہ وہ ضرور تشریف لائیں۔ میں نے اپنی بیٹی سے ذکر کیا۔ شمی والی کال پر وہ اور اس کے ابو وہیں موجود تھے، اس لئے وہ ان خاتون کے بارے میں کہی گئی کہانی سے کم و بیش واقف تھے، مجھے صحیح وقت تو یاد نہیں، لیکن جلد ہی وہ خاتون مع اپنی صاحبزادی اور شمی کے میرے بھائی اور بھاوج کی معاونت سے آگئیں۔ جو اندازہ میں نے ٹیلی فون پر ان کی آواز اور انداز گفتگو سے لگایا تھا، اس کے برعکس وہ بڑی معقول، خوبصورت اور اسٹائل والی خاتون تھیں۔ میرے بھائی تو میرے شوہر کے پاس بیٹھ گئے۔ خواتین لیونگ روم میں بیٹھ گئیں اور میں نے محسوس کیا کہ انہوں نے کمال گفتگو سے مجلس کی توجہ اپنی طرف پھیر لی۔ میری بیٹی کو انہوں نے پیار بھری نظروں سے دیکھا اور پہلی ہی ملاقات میں اپنی مکمل پسندیدگی کا اظہار کردیا۔ بھائی کو جلدی تھی، اس لئے جس وقت بھائی مسجد میں عصر کی نماز ادا کرنے گیا، انہوں نے بھی وضو کرنے اور پھر نماز پڑھنے کیلئے کہا۔ انہوں نے اس بہانہ گھر کے اندرونی سیٹ اپ اور واش روم کی صفائی ستھرائی کا اندازہ بھی کر لیا۔ کیونکہ لابی سے گزرتے ہوئے ان کے کمنٹس تھے کہ گھر کا رکھ رکھاؤ تو ہمارے جیسا ہی ہے، خیر وہ جلد آنے کا کہہ کر واپسی کیلئے روانہ ہوگئیں۔ اس پورے دورانیے میں ان کی صاحبزادی نے سلام تو ضرور کیا ہوگا۔ اس کے علاوہ وہ کچھ نہیں بولیں، یہاں تک کہ جب ان کی والدہ نے نماز کی دعوت دی تو بھی وہ نہیں اٹھیں۔ گردن نفی میں ہلا دی۔ انہوں نے مشاورت کے بعد دوبارہ جلد آنے کا کہا اور روانہ ہوگئیں۔ اس کے بعد تمام تبصرے ان کے حق میں تھے۔ میری بیٹی کو بھی ان کا انداز گفتگو اور برملا قابل تعریف چیز کی تعریف کرنا اچھا لگا۔ ان کے پہلے اور دوسرے دورے میں زیادہ دن نہیں لگے۔ اس دفعہ بھی انہوں نے ہمارے ہاں آنے کیلئے بھائی کی ہی مدد لی۔ بھائی کے بجائے بھاوج اپنے ڈرائیور کے ساتھ انہیں اور ان کی بیٹی کو لائیں۔ غیر متوقع طور پر انہوں نے میرے شوہر سے ملنے کا عندیہ دیا۔ ان دنوں میرے شوہر کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ اپنی جسمانی معذوری کی وجہ سے وہ اپنے کمرے تک ہی محدود ہی ہوتے تھے۔ یہ خدا کا فضل ہے، انہوں نے اپنی جسمانی کمزوری کو ہمارے لئے کبھی کسی بھی کمیابی کا سبب نہ ہونے دیا۔ کمرے کی ترتیب اپنے معمول پر تھی۔ شوہر تازہ وضو کے ساتھ بیٹھے ہی تھے، مہمانوں نے ان سے ملنے پر اصرار شروع کر دیا۔ خیر فوری ہی وہ اور ان کی بیٹی ان سے ملنے کمرہ میں گئیں اور بالمشافہ تمام تر دلسوزی اور غم انگیزی کے ساتھ اپنے مکمل کوائف بتائے، رشتہ مانگا اور سب کچھ فوری تکمیل کی استدعا کی۔ ان کی کسی بھی بات یا تاثر سے ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ سب کچھ ملمع سازی ہے یا تھوڑے سچ میں جھوٹ کا انبار ہے۔ غرض یہ کہ شادی ہونے تک اور اس کے بعد ایک مہینہ تک ایک چہرے پر نیکی، خیر، سچائی اور پرہیز گاری کے کئی چہرے سجے رہے۔ میری بیٹی کی قسمت پر ہر ایک کو رشک آرہا تھا۔ لیکن ایک ماہ کا عرصہ گزرا اور میری بیٹی ایک کے بعد ایک تکلیف اور مشکلات کا شکار ہونے لگی۔ اس کا شوہر ایسی خاموش طبیعت اور مردم بیزادی کا مرکب تھا کہ سارا دن تنہا گزارنے والی بیوی سے بات چیت کرنا تو درکنار وہ اس کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا۔ ان کی سکونت ایسی جگہ تھی جہاں نیچے بازار اور ہوٹل وغیرہ تھے اور بلڈنگ میں چھڑے چھانٹ مرد اور دور دیس سے آئی خواتین رہتی تھیں۔ جن سے میل ملاقات نہیں رکھی جا سکتی تھی۔ بالکنی کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا۔ باہر کھلنے والی کھڑکیوں کے شیشے کو رنگین کاغذ سے ڈھانپ دیا گیا تھا اور کسی میڈ کو رکھنے پر یہ کہہ کر منع کر دیا گیا تھا کہ گھر میں کوئی کام ایسا نہیں ہے کہ میڈ کی ضرورت پڑے۔ میری بیٹی ایک ہی ماہ میں اپنی باغ و بہار شخصیت اور خوبصورت چہرے کی رونق کھو بیٹھی۔ چھٹی کا دن اس کا شوہر آدھا دن سوتا۔ باقی ماندہ دن اور رات گئے تک گاڑی میں گھومتا رہتا، اپنے دوستوں کے ساتھ جاتا، مختلف تفریح گاہوں میں بلا مقصد وقت گزارتا اور گھر پہنچ کر انتہائی تھکے ہوئے ہونے کا کہہ کر دوسرے کمرے میں سو جاتا اور میری تنہا بیٹی دوسرے بیڈروم میں رات آنکھوں میں کاٹ دیتی۔ ان حالات کا ذکر وہ صرف اپنی بھاوج سے کرتی تھی۔ لیکن اس پر گزرنے والی کیفیت مجھے سے چھپی نہیں تھی۔ اس کے اور ہمارے ویزے کی مدت ایک ساتھ ختم ہوئی۔ ہم سب واپس کراچی آئے۔ میری بیٹی کو اپنی تعلیمی استاد نکلوانی تھیں اور کچھ کاغذی کارروائی مکمل کرنی تھی۔ اس کا دوسرا ویزہ آنے میں پینتیس روز لگے۔ اس عرصے میں میری بیٹی نے تمام کام مکمل کئے۔ وہ کوشش کرتی رہی کہ شوہر سے رابطہ میں رہے، لیکن بیشتر وقت اس کو ناکامی ہوتی، کیونکہ موبائل آف ہوتا۔ میسج کرتی تو اکثر وہ بغیر پڑھے ان کو ڈیلیٹ کر دیتا۔ یہاں پر قیام کے دوران وہ اپنی ساس کی رہائش پر گئی۔ وہ تو امریکہ میں تھیں، البتہ بڑی نند اور ان کا شوہر وہاں قیام پذیر تھے۔ ( ابھی بھی ہیں) بڑی نند نے صحیح معنوں میں ساس کی قائم مقام ہونے کا ثبوت دیا۔ بہت محبت سے ملیں، خلوص سے حال چال پوچھا۔ اتنی پیار بھری باتیں سن کر میری بیٹی اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکی اور اپنے آپ پر گزرنے والی تمام بپتا اس کو سنا دی۔ نند نے بھائی کو بہت برا بھلا کہا اور اس کے پچھلے کرتوت انتہائی تفصیل سے میری بیٹی کے گوش گزار کئے۔ یہ تمام واقعات رشتہ کے وقت بتائے گئے معاملات کے برعکس تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلی شادی محبت کی شادی تھی، جو ایک شادی شدہ دو بچوں کی ماں سے محبت ہو جانے کی وجہ سے ہوئی۔ پہلے شوہر سے طلاق لی۔ گھر والوں کی مخالفت پر اس نے گھر چھوڑ دیا اور اس عورت کے گھر رہنے لگا۔ اس نے کچھ جائیداد وغیرہ فروخت کی اور سال بھر تک وہیں رہا۔ بہن کے بقول جب پیسے پیسے کو محتاج ہوگیا تو اس بیوی کو طلاق دے کر گھر واپس آیا اور پھر اس کو بیرون ملک بھجوایا گیا۔ سسرال میں دو دن قیام کے دوران بہن نے نہ صرف بھائی کے ماضی کا پردہ چاک کیا، بلکہ اپنی والدہ کے اخلاق، کردار اور بچوں کی پرورش کے ضمن میں کی گئی چیرہ دستیاں بھی وضاحت سے بیاں کیں۔ ان کے خیال میں بھائی کی شخصیت میں سقم والدہ کی سخت گیر طبیعت اور بے جاہ مار پیٹ کا نتیجہ ہے۔ جوش تقریر میں اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ کم عمری میں بیوگی کی سزا وہ اپنے بچوں پر جسمانی تشدد کی شکل میں دیتی تھیں۔ اتنی زہریلی سچائیاں مزید برآں بہن کی قسم کہ بھائی کو مطلق علم نہ ہو کہ تم اس حقیقت سے واقف ہو۔ بہن بھائی ایک دوسرے سے ہمیشہ کیلئے جدا ہو جائیں گے۔ غرض یہ کہ میری بیٹی ناقابل برداشت بوجھ کو اپنی روح پر اٹھائے واپس اپنے شوہر کے شہر پہنچی تو اس کی بے اعتنائی اور غصہ پہلے سے سوا تھا۔ ’’تم اتنی جلدی واپس آگئیں۔ کچھ دیر اور وہیں نہیں رک سکتی تھیں۔ بہتر ہوتا تم وہیں رہ جاتیں پلٹ کر نہ آتیں۔‘‘ بہت منت سماجت کے بعد اس نے بتایا کہ اس کی امی نے زبردستی میری بیٹی سے شادی کروائی ہے اور وہ اس کو بالکل پسند نہیں کرتا، بلکہ روز اول سے اس کی خواہش ہے کہ میری بیٹی اس کے رویے سے تنگ ہو کر والدین کے پاس چلی جائے اور میری بیٹی اس خوف سے کہ بیمار ماں باپ بیٹی کے گھر واپس آنے کے غم کو سہ پائیں گے یا نہیں، اتنی ناقدری برداشت کرتی رہی۔(جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More