امریکی اثر و رسوخ

0

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپو نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران نہ صرف اپنے شہریوں بلکہ پوری دنیا اور خاص طور پر یورپ کے لیے مشکلات، موت اور دہشت گردی کا سبب بن رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران کی حمایت یافتہ دہشت گردی سے یورپ بھی محفوظ نہیں ہے، جبکہ ایران یورپ کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ امریکہ کے نکل جانے کے باوجود ایران کے جوہری معاہدے میں شامل رہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایران یورپ میں دہشت گردی اور دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی بھی کر رہا ہے۔
بارک اوباما کے دور میں امریکہ اور ایران کے درمیان گو اختلافات موجود تھے، لیکن تعلقات اس قدر نچلی سطح پر نہیں تھے جب سے ڈونالڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا ہے۔ بارک اوباما کی دور اندیشی اور فہم و فراست کے ہی سبب ایران اور امریکہ کے درمیان موجود ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے باضابطہ ایک معاہدہ عمل میں آیا تھا، جس کی پوری دنیا نے تعریف کی تھی اور حقیقت یہ تھی کہ ایران کے پیچیدہ ایٹمی پروگرام کو محدود کرکے اور اس کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کرکے امریکہ نے اسے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاریوں سے باز رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ خود بارک اوباما نے اسرائیل کا دباؤ مسترد کرتے ہوئے اس تاریخی معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد کہا تھا کہ موجودہ حالات میں ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاریوں سے روکنے کے لئے اس سے زیادہ بہتر معاہدہ ممکن نہ تھا۔
امریکہ اور ایران کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے میں روس، چین، فرانس، برطانیہ اور جرمنی نے بھی بطور ضمانت دستخط کئے تھے اور یہ پانچ ممالک بھی اس معاہدے کی حمایت کرتے ہیں۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے بھی اس معاہدے پر اطمینان کا اظہار کیا تھا، کیونکہ اس معاہدے کے بعد ایران نے اپنی ایٹمی سرگرمیوں اور خاص طور پر یورنیم کو افزودہ کرنے کی تمام تر کوششیں محدود کر دی تھیں۔ معاہدے کے تحت IAEA کے انسپکٹرز بڑی باقاعدگی کے ساتھ ایران کا دورہ کرکے اس کی ایٹمی سرگرمیوں کو مانیٹر کر رہے ہیں اور IAEA کئی بار اس بات کی تصدیق کر چکی ہے کہ ایران خلوص دل کے ساتھ اس معاہدے پر نہ صرف عمل کر رہا ہے، بلکہ اس نے اس معاہدے کی کبھی خلاف ورزی بھی نہیں کی ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسرائیل اس معاہدے پر کبھی خوش نہ تھا اور اس نے بارک اوباما کے دور میں بھی اس معاہدے کی نہ صرف مخالفت کی تھی، بلکہ امریکہ کو کئی بار مشورہ بھی دیا تھا کہ وہ ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرکے انہیں تباہ کر دے۔ اسرائیل نے امریکہ کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی پیشکش بھی کی تھی، لیکن بارک اوباما نے نہ صرف ان پیشکشوں کو مسترد کیا تھا، بلکہ اسرائیل کو بھی خبردار کیا تھا کہ وہ ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملے سے باز رہے، کیونکہ بارک اوباما کو اس بات کا اچھی طرح سے ادراک تھا کہ ایسی کوئی کوشش مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس میں آگ لگانے کے مترادف ہوگی اور اس سے تمام دنیا کا امن و استحکام خطرے سے دوچار ہو جائے گا۔
بدقسمتی سے امریکہ میں عنان اقتدار ڈونالڈ ٹرمپ جیسے غیر سنجیدہ اور غیر سیاسی شخص کے ہاتھ میں آگیا، جو اسرائیل سے بے حد نزدیک تصور کیا جاتا ہے اور جس کا ثبوت ٹرمپ نے دے بھی دیا۔ اول اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا، پھر ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے محض اسرائیل کی خوشنودی کی خاطر دستبردار ہونے کا اعلان کیا۔ ٹرمپ نے اسرائیل کی محبت میں اندھے ہوکر امریکہ کی بین الاقوامی ساکھ اور کریڈبیلیٹی کو بھی داؤ پر لگا دیا، جبکہ اس معاہدے میں شامل دیگر پانچ ممالک تاحال اس کا حصہ ہیں، ایران بھی اس معاہدے پر اب تک من و عن عمل پیرا ہے۔ امریکہ نے اس معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران پر نئے پیمانے پر پابندیاں عائد کر دی ہیں اور اب امریکہ ایران کی تیل کی برآمدات کو نشانہ بنانا چاہ رہا ہے۔ اس نے اپنے تمام حلیف ملکوں کو کہہ دیا ہے کہ وہ ایران سے تیل کی خریداری مکمل طور پر بند کر دیں۔
ایران نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے کہا کہ اگر امریکہ نے ایران کی تیل کی برآمدات کو روکنے کی کوشش کی تو اسے بھرپور جواب دیا جائے گا۔ تیل کی برآمدات کو ایران کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے اور جیسا کہ امریکہ ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد اب ایران کے خلاف عائد پابندیوں کو بتدریج بحال کر دیا ہے، اس میں ایران کی تیل کی برآمدات کو ترجیحی طور پر نشانہ بنایا جائے گا، جو ظاہر ہے ایران کیلئے کسی بھی طرح ناقابل برداشت ہوگا اور ایران اس پر سخت ردعمل ظاہر کرے گا۔
دنیا کے کسی بھی ملک کو امریکہ کی طرف سے ایران پر عائد کی جانے والی پابندیوں کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے ان پابندیوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور یہ مکمل طور پر غیر قانونی ہیں۔ صرف اقوام متحدہ کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں پر عمل کرنا جائز اور مناسب ہے۔ امریکہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی ملک کی معیشت پر اپنے طور پر پابندیاں عائد کرے۔ اسی قسم کی غیر قانونی پابندیاں امریکہ نے روس پر بھی عائد کر رکھی ہیں اور بہانہ یہ بنایا ہے کہ روس نے یوکرائن کے خلاف جارحیت کی ہے۔ اگر اسی بہانے کو جواز بنایا جائے تو پھر امریکہ پر بھی سخت ترین پابندیوں کا اطلاق ہونا چاہیے، کیونکہ اس نے افغانستان اور عراق کے خلاف ننگی جارحیت کی ہے اور ان دونوں ملکوں پر فوج کشی کرکے اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ امریکہ نے ان دونوں ممالک میں ہزاروں بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔
امریکہ نے لیبیا کو بھی نیٹو کے ساتھ مل کر ننگی جارحیت کا نشانہ بنایا اور ایک پر امن خوشحال ملک کو جنگ کی آگ میں جھونک کر اس میں خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ آج کا لیبیا انارکی کا شکار ہے اور اس میں عملاً کوئی حکومت نہیں۔ ہزاروں لیبیائی شہری ہلاکتوں کا شکار ہو رہے ہیں اور ملک میں قانون نام کی کسی چیز کا وجود نہیں ہے اور اس تمام صورت حال کا ذمے دار امریکہ اور نیٹو ہے، جس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی آڑ لے کر لیبیا کو بدترین تباہی سے دوچار کیا اور لیبیا آج تک انارکی کی زد میں ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپو کو ایران پر یورپ میں دہشت گردی کے الزامات عائد کرتے ہوئے شرم آنی چاہئے، کیونکہ وہ امریکی سی آئی اے کے سابق سربراہ کی حیثیت سے خود دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد رہے ہیں۔ ان کی سربراہی میں سی آئی اے نے دنیا بھر میں دہشت گردی کی ہے اور اب بھی کر رہی ہے۔ کیا مائیک پومپو میں اتنی اخلاقی جرأت اور ہمت ہے کہ وہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھ سکیں؟ مائیک پومپو کو ایران کی دہشت گردی تو نظر آگئی، مگر وہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے محصور فلسطینیوں کے خلاف کی جانے والی مسلسل دہشت گردی کو دیکھنے کے لئے اندھے کیوں بن گئے ہیں۔ اسرائیل کی مسلسل جارحیت اور دہشت گردی نا تو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو نظر آتی ہے نہ ہی اقوام متحدہ کو، جو ہاتھ باندھ کر امریکہ کی باندی بنی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنے کمزور کردار کے باعث اپنے منہ پر خود ہی کالک مل لی ہے اور اپنے وقار اور کریڈیبیلٹی کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے کمزور کردار کے باعث اسرائیل کو اپنی من مانی کرنے کی پوری آزادی میسر آچکی ہے اور امریکہ اندھا بن کر اسرائیل کی بھرپور سپورٹ کر رہا ہے۔ جو اقوام متحدہ کے لئے باعث شرم ہے۔ اگر اقوام متحدہ دنیا بھر میں امن و امان کے قیام اور عدل و انصاف کرنے کے لائق نہیں رہی تو پھر اسے ختم کر دینا ہی بہتر ہوگا، کیونکہ دنیا میں اقوام متحدہ کے ہوتے ہوئے بھی جنگل کا قانون چل رہا ہے، جو اس کے لئے اور اس کے وجود کے لئے ایک شرمناک عمل ہے۔ امریکہ جو خود کو دنیا کی واحد سپر پاور قرار دیتا ہے اگر اسے اپنے مرتبہ اور عالمی ذمہ داری کا احساس ہے تو اسے طے شدہ مسائل کو ایک بار پھر سے متنازعہ بنانے سے گریز کرنا ہوگا۔ اگر امریکہ کی خواہش ہے کہ دنیا میں اسے عزت و وقار کی نظر دیکھا جائے تو اسے انصاف کے پیمانوں کو یکساں رکھنا ہوگا، اسے ایران اور اسرائیل کو ایک ہی نظر سے دیکھنا ہوگا، لیکن اگر امریکہ ایسا نہیں کرتا، اس کے پیمانے مختلف رہے، اس نے ایران کو دیوار سے لگانے اور اسرائیل کو اس کی دہشت گردی اور ننگی جارحیت کے باوجود انعام و اکرام سے نوازنا جاری رکھا تو وہ دن دور نہیں جب امریکہ نا تو سپر پاور رہے گا اور نہ ہی عالمی طور پر اس کی عزت و وقار قائم رہے گا۔ امریکہ کے اثر ورسوخ کا سورج تیزی سے غروب ہو رہا ہے۔ ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More