ترکی میں گرفتار ہونے والا امریکی پادری 20 سال تک سی آئی اے کا اثاثہ رہا۔ اینڈریو برینسن کو ’’ریمبو‘‘ کے خفیہ کوڈ سے مغربی ترک شہر ازمیر میں تعینات کیا گیا تھا، جس نے عیسائیت کی تبلیغ کی آڑ میں طیب اردگان کے خلاف فوجی بغاوت کرانے کی سازش بھی رچائی۔ ترک میڈیا نے تفتیشی اور انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ ترکی میں گرفتار ہونے والا امریکی پادری اینڈریو برینسن دراصل سی آئی اے کا ایجنٹ ہے۔ وہ نارتھ کیرولینا کا رہائشی ہے، لیکن اپنی بیوی نورین کے ساتھ مغربی ترکی میں دو دہائیوں سے رہ رہا تھا، جہاں اس نے عیسائیت کی تبلیغ کی آڑ میں سی آئی اے کیلئے کام کیا۔ 2016ء میں ترک صدر طیب اردگان کی حکومت کا پانسا پلٹنے کی سازش میں بھی وہ شریک تھا۔ ترک آن لائن جریدے احوال نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ طیب اردگان نے کمال مہارت سے کام لیتے ہوئے امریکا کو ڈاج دے دیا ہے اور امریکا کے ذریعے اسرائیل میں گرفتار ترک خاتون سیاح آبرو اوزکان کو رہائی دلا دی، لیکن اس کے بدلے میں امریکی پادری اینڈریو برینسن کو رہائی دینے سے صاف انکار کردیا۔ البتہ ترک صدر نے سی آئی اے کے ایجنٹ پادری کو جیل سے نکال کر اس کے گھر پر نظر بند کردیا ہے۔ ترک نیوز چینل احابر نے امریکی پادری کو جاسوس قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ سی آئی اے کیلئے کام کرنے والا امریکی پادری بظاہر عیسائیت کی تبلیغ کررہا تھا۔ لیکن در حقیقت یہ پادری سی آئی اے کا تربیت یافتہ ایجنٹ ہے، جسے طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے سکیولر ترک فوجی قیادت سے رابطوں کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ ترک جریدے تقویم نے ایک الگ رپورٹ میں مزید بتایا ہے کہ ترک انٹیلی جنس کو دو سال پہلے ہی امریکی پادری کی مذموم حرکتوں کی بھنک پڑگئی تھی، لیکن اس کو فوری گرفتار کرنے کے بجائے محض ریڈار پر رکھا گیا۔ جولائی2016ء کی فوجی بغاوت کے بعد برینسن کو بیوی نورین کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا، بعد ازاں دونوں کو رہائی دے دی گئی تھی۔ ترک جریدے تقویم کے ایڈیٹر ایرگون ڈائیلر نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ امریکی پادری سی آئی اے کا ترکی میں ریجنل چیف بھی ہے، جو 2011ء میں اپنے کلیسا میں فائرنگ کے ایک واقعہ میں بال بال بچ گیا تھا۔ ترک نیوز چینل احابرکے مطابق سی آئی اے کے پادری جاسوس برینسن کا اعترافی بیان بھی ویڈیو کی شکل میں موجود ہے جس سے امریکیوں کو وقت پڑنے پر مطمئن کیا جائے گا۔ امریکی جاسوس پادری کے حوالے سے ایک اعلیٰ ترک انٹیلی جنس افسر کا کہنا ہے کہ ’’یہ اسپیشل ایجنٹ ہے، جس کی حمایت میں امریکی صدر بھی کھڑا ہوا ہے۔ ٹرمپ جانتا ہے کہ اینڈریو برینسن، پادری کے بھیس میں سی آئی اے کا اسپیشل ایجنٹ ہے۔‘‘ ترک میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی ایجنٹ کردستان ورکرز پارٹی کے رہنماؤں سمیت امریکا میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن سے مسلسل رابطوں میں مشغول تھا، جس کے مواصلاتی اور دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ ترک پراسکیوٹرز کے مطابق انہی شواہد کی بنا پر عدالت نے برینسن کے کیس کو اکتوبر تک ملتوی کر دیا ہے اور اس کو قید میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔ نیویارک پوسٹ نے بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے دی جانے والی سنگین اور جامع پابندیوں کا معاملہ اس لئے ابھرا ہے کہ ترک صدر اردگان نے امریکا کی جانب سے کسی قسم کے دبائو کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ایک ہفتے قبل دو خصوصی امریکی ایلچیوں نے ترک صدر سے ملاقات تو کی ہے، لیکن اس ملاقات میں ترک مرد آہن نے امریکی ایلچیوں سے لگی لپٹی رکھنے کے بجائے کو صاف جواب دے دیا۔ طیب اردگان نے امریکی صدر کے ایلچیوں کو کہا کہ معاملہ عدالتی فورم پر ہے اور امریکی حکومت کو ترک عدلیہ کا احترام کرنا چاہئے۔ ترک جریدے ہبر ترک نے انکشاف کیا ہے کہ طیب اردگان نے امریکی ایلچیوں کے توسط ٹرمپ کو پیغام بھجوایا ہے کہ اگر امریکا ترکی کے غدار اور جلا وطن مبلغ فتح اللہ گولن کے بدلہ میں امریکی جاسوس پادری اینڈریو برینسن کی رہائی چاہتا ہے تو وہ اپنے خصوصی صدارتی اختیارات استعمال کرسکتے ہیں۔ لیکن امریکی حکومت نے گولن کی رہائی کیلئے کسی قسم کی یقین دہانی سے انکار کردیا ہے۔ اسلام دشمن امریکی صدر ٹرمپ نے ترکی کو معاشی پابندیوں کی دھمکیاں دی ہیں۔ ترک میڈیا نے بتایا ہے کہ امریکی صدر ترک قیادت سے اس لئے بھی شدید مخاصمت رکھتے ہیں کہ وہ امریکا کو منہ توڑ جواب دیتے ہیں اورحالیہ ایام میں ترکی نے ایران کا کھل کر ساتھ دیا ہے اور ایرانی کمپنیوں سے تجارت سمیت ایرانی خام تیل کی خریداری پر لاگو کی جانے والی یکطرفہ امریکی پابندیاں نظر انداز کر دیں۔ واضح رہے کہ امریکی حکومت نے کانگریس کی آڑ لے کر ترکی کو دبائو میں لینے کی کوشش کی ہے اور ترکی کو جدید ترین لڑاکا طیاروں F-35 کی فراہمی سے انکار کردیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ جب تک ترکی، روس کے ساتھ جدیدترین میزائل شیلڈز ایس یو 400کی خریداری ڈیل منسوخ نہیں کرتا، اس وقت تک ترکی کو F-35 فراہم نہیں کئے جائیں گے۔ اس امریکی دھمکی کو بھی ترک قیادت نے پیروں تلے کچل دیا ہے اور گیدڑ بھبکیوں کے جواب میں ترک وزیر خارجہ نے سخت موقف اپناتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی ایک آزاد ریاست ہے اور کسی ملک کی دھمکیوں میں آنے والا نہیں ہے۔ ادھر امریکی میڈیا نے تسلیم کیا ہے کہ برینسن کی رہائی کیلئے ہائی پروفائل امریکی حکام ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔