’’سیلانی صاب! وہ کیا کہتے ہیں جے آئی ٹی والے ہمارے گاؤں میں آئے تھے۔ انہوں نے ہم سب کے بیان لئے اور پھر کہا کہ آپ کو بلائیں گے، لیکن کسی نے بلایا اور نہ ہمیں کوئی خبر ہے کہ آگے کیا ہوا۔‘‘ قاری زکریا کے لہجے میں وہی نا امیدی تھی، جو پاکستان کے طول و عرض میں بسنے والے ہر اس شخص کے پاس وافر مقدار میں ہے، جس کا تعلق عوام سے ہے، جس کے نصیب میں صرف دھکے اور گھرکیاں ہیں۔ سیلانی نے قاری زکریا سے پوچھا:
’’آپ لوگوں نے کچھ معلوم کرنے کی کوشش کی؟ کبھی کسی کے پاس گئے تو ہوتے؟‘‘
جواب میں قاری زکریا نے بے چارگی سے کہا:
’’صاب! کس کے پاس جاتے؟ ہم دیہاتیوں کو بڑے بڑے دفتر والے دروازے سے ہی بھگا دیتے ہیں اور ہمیں تو کچھ پتہ بھی نہیں، کس کے پاس جائیں؟ بڑے بھائی یوسف اور ابراہیم کراچی گئے تھے۔ وہاں انہوں نے ٹی وی پر بیان دیئے تھے اور پولیس والوں نے بھی کچھ لکھت پڑھت کی تھی۔ لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔‘‘
’’یہ جو نئی حکومت آئی ہے، ان کے کسی وزیر، کسی ایم پی اے اور ایم این اے نے رابطہ تو کیا ہوگا، کوئی ملاقات تو ہوئی ہوگی…؟‘‘
سیلانی کی بات منہ میں ہی رہ گئی۔ قاری زکریا بات کاٹ کر کہنے لگا: ’’صاب! ہم غریبوں کے پاس کون آتا ہے؟ کوئی بھی نہیں آیا۔ بس جانے والے چلے گئے… ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے۔ ہمارے غم میں بوڑھی ماں بھی مر گئی۔ ہم اس کا مرا ہوا منہ بھی نہیں دیکھ سکے۔ اس کے جنازے کو کاندھا بھی نہ دے سکے، پھر میرے بھائی اور بھتیجے کو بھی مار کر پھینک دیا۔ انہیں دہشت گرد بنا دیا۔ صاب! ادھر غریب کا کوئی حال نہیں۔ کوئی والی وارث نہیں ہے۔‘‘
قاری زکریا کے لہجے سے دکھوں کا نوحہ تھا۔ مایوسی کی ٹھنڈ اور بے بسی کی تہہ میں تلملاتا ہوا اشتعال تھا اور کیسے نہ ہوتا، جس کا جوان بھائی اور بھتیجا گھر سے اٹھا لئے جائیں اور پھر کئی ماہ بعد سینکڑوں میل دور دوسرے شہر کے ویرانے میں قتل کر کے پھینک دیئے جائیں۔ بوڑھی ماں بیٹوں کے غم میں دل پر جھریوں بھرا ہاتھ رکھ کر قبر کے گڑھے میں جا اترے اور وہ اس کے جنازے کو کاندھا بھی نہ دے سکے۔ اس سے زیادہ دکھ اور بے بسی کیا ہوگی؟ سیلانی ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔ اس سے پھر کوئی اور سوال نہ بن پڑا۔
پاکستان میں اگر کسی مصور کو بے بسی، بے چارگی کی تصویر بنانے کے لئے کہا جائے تو اس کا رنگوں میں لتھڑا برش جہاں عوام کے بہت سارے چہرے بنائے گا، وہیں ان میں کچھ چہرے اچ شریف کے قاری زکریا اور اس کے سیدھے سادے دیہاتی بھائیوں کے بھی ہوں گے۔ اچ شریف کی حیدر پور لانگ گرواں بستی میں قاری زکریا بے بسی اور بے کسی میں دبی امید کے ساتھ زندگی کی گاڑی کھینچ رہا ہے۔ ہر صبح پو پھٹنے کے بعد گھر کے آنگن میں دھوپ کی دستک پر وہ بے بسی تلے دبی ہلکان ہوتی امید نکالتا ہے اور ٹھنڈی سانس بھر کر دن کے لگے بندھے معمولات کا آغاز اس آس پر کرتا ہے کہ شاید آج وہ سب ہونے لگے، جو اسے خواب لگتا ہے۔ ان کی بستی میں دھول اڑاتی ہوئی بڑی بڑی گاڑیاں آکر رکیں۔ کسی سے اس کے گھر کا پتہ پوچھیں۔ اس کے دروازے پر دستک دے کر اسے بلائیں اور یقین دلائیں کے اس کے ماں جائے کا خون معاف نہیں ہوگا۔ اس کے بھائی اور بھتیجے کا قاتل سولی سے اس وقت تک لٹتا رہے گا جب تک اس کی ہتھیلیاں زرد نہیں ہو جاتیں۔ یہی اللہ تعالیٰ کا قانون اور یہی پاکستان کا قانون ہے۔ یہ دیکھو، عدالت نے آرڈر دے دیا ہے…
اچ شریف کی بستی حیدر پور لانگ گرواں میں گیارہ نومبر 2016ء کی صبح گیارہ بجے قیامت ہی ٹوٹ پڑی تھی، جب قاری اسحاق اور اس کے بھتیجے محمد صابر کو قانون کے رکھوالے موبائلوں میں ڈال کر لے گئے، جس کے بعد اس کے بھائی اور بھتیجے کا کچھ پتہ نہ چلا، پھر لگ بھگ دو سال بعد انہیں پتہ چلا کہ کراچی کے ویرانے میں نقیب اللہ محسود کے ساتھ قتل کئے جانے والے تین افراد میں سے ایک اس کا بھائی قاری اسحاق اور دوسرا بھتیجا صابر تھا۔
اچ شریف سے حراست میں لئے جانے والے یہ چچا اوربھتیجا کس طرح کراچی پہنچے اور کس طرح بدنام زمانہ سفاک پولیس افسر راؤ انوار کے ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں قتل ہوئے، اس کا انہیں کچھ علم نہیں۔ سوشل میڈیا میں نقیب اللہ محسود کے قتل کا شور اٹھا تو میڈیا بھی متوجہ ہوا۔ ٹیلی ویژن کی اسکرینوں نے بریکنگ نیوز اگلنا شروع کردیں۔ چیف جسٹس نے نوٹس لیا۔ راؤ انوار کی گرفتاری کے احکامات جاری کئے گئے۔ لیکن راؤ انوار کسی کے ہاتھ نہیں آیا۔ اس نے خود ہی گرفتاری دی تو دی نیشنل پولیس اکیڈمی اسلام آباد سے تربیت پانے والے زیرک افسران کی ساری پھرتیاں کسی کام نہ آئیں۔ قانون کے لمبے ہاتھ چھوٹے ہوگئے تھے۔ سیلانی کو یہ سب اسلام آباد میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی الوداعی تقریب سے خطاب پر یاد آیا۔ چوہدری افتخار کے بعد ثاقب نثار دوسرے چیف جسٹس تھے، جنہوں نے ازخود نوٹسز سے شہرت کمائی۔ ثاقب نثار ان ججوں میں سے تھے، جو بولنے کے لئے اپنے فیصلوں کا انتظار نہیں کرتے تھے۔ جی چاہا تو تھرپارکر چلے گئے۔ خیال ہوا کہ جناح اسپتال جانا ہے تو وہاں پہنچ گئے۔ خیال آیا کہ ملکی آبادی زیادہ ہے تو نوٹس لے لیا اور کانفرنس کرا ڈالی۔ فکر نے ستایا کہ پانی کی قلت کھیت کھلیان سکھا دے گی تو ڈیم بنانے کا اعلان کردیا اور پھر فنڈ بھی قائم کر دیا۔ ان کے فیصلوں سے نواز شریف کا دھڑن تختہ ہوا۔ نامی گرامی سیاستدان نااہل ہوئے۔ ملک کا طاقتور ترین شخص جاتی امراء کے محل سے جیل کی چار دیواری میں پہنچا۔ کبھی بھی پریشان نہ ہونے والے بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض پریشان ہوئے۔ توہین رسالت کے الزام میں گرفتار آسیہ مسیح عدالت عظمیٰ کی نظر میں بے قصور ثابت ہوئی۔ جانے کیا کیا کچھ ہوا۔ نہیں ہوا تو عدالتوں میں سائلین کا حال نہیں بدلا۔ الماریاں ویسے ہی فائلوں سے بھری رہیں۔ پیشکار ویسے ہی رائج طریقوں پر غریبوں کی پیشیاں لگاتے رہے۔ زیر التواء مقدمات کی تعداد بڑھتی ہوئی آبادی کی سی رفتار سے بڑھتی گئی۔ جب ثاقب نثار چیف جسٹس بنے تو صرف سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد بتیس ہزار تھی، جو ان کی رخصتی پر چالیس ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے…
کاش ثاقب نثار جاتے جاتے عوام کے دل کی آواز سنتے ہوئے نقیب اللہ محسود اور اس کے ساتھ مارے جانے والے تین بے گناہوں کے قتل کا ہی فیصلہ سنا ڈالتے… سیلانی نے ٹھنڈی سانس لی اور سامنے اسکرین پر ثاقب نثار کو خطاب کرتے ہوئے دیکھنے لگا۔ ان کی تقریر سے ہی سیلانی کو اچ شریف کا بہنے والا وہ بے خطا لہو یاد آیا تھا۔ سیلانی انہیں دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ وہ انہیں خراج عقیدت پیش کرے یا شکرانے کے نوافل پڑھے… وہ اسی شش و پنج میں تھا کہ سیل فون کی گھنٹی نے اسے اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ واٹس اپ پر قاری اسحاق اور صابر کے قتل کے خلاف آواز بلند کرنے اور سیلانی کی توجہ دلانے والے نوجوان صحافی کا پیغام آیا تھا کہ جب راؤ انوار مفرور تھا اور پورے ملک میں قانون کے ہاتھ اسے بظاہر ٹٹول رہے تھے، اس وقت اس کے خطوط سپریم کورٹ کو موصول ہو رہے تھے۔ لیکن اسی اسلام آباد میں پریس کلب کے باہر بیٹھے ہوئے قاری اسحاق اور صابر کے ورثاء احتجاج کر رہے تھے۔ دہائیاں دے رہے تھے۔ سپریم کورٹ کو خط لکھ رہے تھے۔ لیکن ایک کلومیٹرسے وہ خط ’’چیف صاحب‘‘ تک نہیں پہنچ پا رہے تھے۔ چیف صاحب نے سب کچھ کیا، لیکن کچھ نہ کیا… سیلانی نے پیغام پڑھ کر فون ایک طرف رکھ دیا اور اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والے متنازعہ منصف اعلیٰ کو آخری خطاب کرتے ہوئے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
٭٭٭٭٭
Next Post