امریکا افغانستان میں اور کیا کرنا چاہتا ہے؟

0

وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد معروف امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر عمران خان سے ملاقات کیلئے زور دیں گے تاکہ اٹھارہ برسوں سے جاری افغان تنازع کا کوئی حل نکالا جا سکے۔ لنڈسے گراہم نے کہا کہ وہ آنجہانی سینیٹر جان میک کین کے ساتھ پاکستان اور افغانستان کا پچاس سے زائد مرتبہ دورہ کر چکے ہیں، لیکن اپنے تازہ دورے میں انہیں بڑی تبدیلیاں نظر آئی ہیں۔ آج کا پاکستان امریکا سے دفاعی و معاشی تعلقات کے حوالے سے بہت بدلا ہوا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ افغانستان میں امن کا قیام خطے میں امن کیلئے نہایت ضروری ہے۔ تاہم امریکی سینیٹر نے واضح کیا کہ ہم افغانستان میں دوبارہ طالبان کا کنٹرول نہیں چاہتے۔ ان کا خیال ہے کہ پاک امریکا فوجی آپریشن خطے میں گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ ادھر وزیر اعظم عمران خان نے بھی امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم سے ملاقات کے بعد کہا کہ پاکستان کے پڑوسی ملک افغانستان پر دوبارہ قبضہ کرلینا کسی کے مفاد میں نہیں۔ ہم افغانستان کو نہیں کھو سکتے اور ہرگز نہیں چاہتے کہ وہ پھر سے شدت پسندوں کے ہاتھوں میں چلا جائے۔ ہم اس ملک سے دور نہیں جا سکتے۔ یہاں ہمیں بہت کچھ کرنا ہے۔ سینیٹر لنڈسے گراہم اپنے ملک میں جو بھی حیثیت رکھتے ہوں، لیکن پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت سے ملاقات کے بعد انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، اسے پاکستان اور افغانستان کے بارے میں امریکی پالیسی میں کسی تبدیلی کا مظہر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان کے خیال میں وزیر اعظم عمران خان کی موجودگی میں امریکا کیلئے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کا ایک اچھا موقع ہے۔ سینیٹر لنڈسے گراہم نے اعتراف کیا کہ امریکا نے پاکستان کے بارے میں بار بار پالیسی تبدیل کرکے سخت غلطی کی ہے، جبکہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ ہیں۔ افغان مسئلے کے حوالے سے بنیادی بات یہ ہے کہ یہ اس ملک کے عوام کا اپنا مسئلہ ہے۔ امریکا نے دخل درمعقولات کرکے افغانستان میں ہلاکتوں اور تباہی کا سیاہ ترین باب رقم کیا ہے۔ پچاس سے زائد مرتبہ افغانستان اور پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم کو کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ ان کے ملک نے ایک بھرے پرے اور پرامن ملک کو محض نائن الیون کے حملوں کی آڑ میں تباہ کرکے خطے اور انسانیت کی کیا خدمت کی ہے؟ اب انہوں نے عمران خان سے جو امیدیں وابستہ کرلی ہیں، اس کی بنیاد کیا ہے؟ نہ وہ افغانستان کی اصل قوت طالبان میں مقبول ہیں، نہ ان کی پالیسیوں کو پاکستانی عوام میں کوئی مقبولیت حاصل ہو سکی ہے۔ قرضوں کے حصول کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا مشورہ امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم کے خیالات کو ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے۔ وہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو شاید اسی لئے بہتر سمجھتے ہیں کہ اس کے وزیر خزانہ اسد عمر نے آئی ایم ایف کی جانب سے شرائط پیش کرنے سے پہلے ہی انہیں تسلیم کرکے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ عمران خان اپنے ملک میں مدینہ جیسی فلاحی ریاست قائم کرنے کا جو دعویٰ کر رہے ہیں، اس کی حقیقت امریکا، برطانیہ، اسرائیل سمیت ساری عالمی برادری کو معلوم ہے۔ اپنی ذات و ساتھیوں کے حوالے سے عمران خان کی پوری پارٹی اور حکومتی مغربی تہذیب کی دلدادہ ہے۔ لہٰذا اس کے دور ہی میں افغانستان پاکستان اور خطے میں امریکی مقاصد پورے ہو سکتے ہیں۔ امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم کی بدنیتی کا اندازہ ان کے اس بیان سے کیا جا سکتا ہے کہ ہم افغانستان میں دوبارہ طالبان کا کنٹرول نہیں چاہتے، کیوں؟ انہیں یا امریکا کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ افغانستان اور اس کے عوام پر اپنی مرضی کی حکومت مسلط کرے، جبکہ افغانستان کے کم و بیش ستر فیصد علاقے پر آج بھی طالبان کا اثر و نفوذ ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ ہوں یا اس سے پہلے کے آرمی چیف اور فوجی حکام، ان سب نے پاکستان میں امریکی دہشت گردی سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو پانے میں مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان بہت حد تک دہشت گردوں سے پاک ہو چکا ہے۔ امریکا اور اس کے فوجی افغانستان سے بے دخل ہو جائیں۔ اس کے بعد ہی وہاں اور خطے میں امن و استحکام کی فضا قائم ہو سکتی ہے۔ اٹھارہ برسوں میں امریکا نے افغانستان کو تباہی و بربادی کے سوا کیا دیا ہے کہ وہ اب بھی یہاں بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔
وہ اپنے انجام بد کا انتظار کریں
کراچی میں ہل پارک کی راہ نما مسجد کو تجاوزات کے نام پر گرانے کا معاملہ میئر کراچی وسیم اختر کے گلے پڑ گیا ہے۔ یہ مسجد سائٹ پلان میں ہونے کی وجہ سے قانونی تھی۔ وسیم اختر کے حکم پر مسجد کو شہید کرنا علمائے کرام نے شعائر اللہ کی توہین قرار دیا ہے۔ میئر کراچی جس سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں، اس نے ماضی میں ہزاروں انسانی جانیں لینے میں کوئی تامل نہیں کیا۔ سانحہ بلدیہ ٹائون کراچی اور بارہ مئی کے واقعات میں ایم کیو ایم کے دہشت گردوں نے جو کردار ادا کیا تھا، ان کے مقدمات اب تک عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ جس ٹولے کو انسانی جانوں کا احترام نہ ہو، وہ اگر مسجدوں اور اسلامی شعائر کی پروا نہ کرے تو یہ ہرگز حیرت کی بات نہیں۔ کوئی مسجد اگر کسی شخص کی نجی زمین پر نہیں بنائی گئی، بلکہ پارک جیسے سرکاری مقام پر آنے والے نمازیوں کیلئے قائم کی گئی ہو تو اسے گرانے کا کسی بڑے سے بڑے حاکم کو حق حاصل نہیں ہے۔ ایک جگہ مسجد بننے کے بعد وہ قیامت تک باقی رہتی ہے۔ ایک خبر یہ ہے کہ ہل پارک کی مسجد کو شہید کرکے وہاں فحاشی کا اڈا قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔ حکومت نے بدقسمتی سے شراب خانے کھولنا آسان اور مساجد کی تعمیر کو مشکل بنا دیا ہے۔ دین سے بیزاری اور دینی شعائر کی سنگین بے حرمتی پر وفاقی اور صوبائی حکومت کے علاوہ میئر کراچی وسیم اختر انشاء اللہ اسی دنیا میں اپنا انجام بد دیکھ لیں گے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More