دیوہیکل ڈاکو کا عبرتناک انجام

0

اس غار پر اتنابڑا پتھر تھا، جسے کئی سو آدمی مل کر ہی ہلا سکتے تھے، لیکن اسے اس شخص نے اکیلے ہی جوں ہی اٹھایا تو اندر سے ایک خوبصورت عورت نکل آئی، اس نے اس سے حال احوال پوچھے اور پھر دونوں بیٹھ کر کھانا کھانے لگے۔ پھر اسے اٹھ کر چلے جانے کو کہا تو وہ عورت غار میں چلی گئی۔
پھر اس نے میرے سامنے ہی میرے بھائی کو ذبح کردیا۔ تھوڑی دیر میں اس نے آگ جلائی اور اس پر میرے بھائی کا گوشت بھون کر سارا گوشت چٹ کر گیا۔ صرف میرے بھائی کی ہڈیاں بچیں۔ اسی دوران اس نے مجھے اپنی طرف گھسیٹا۔ مجھے تو یقین ہوگیا کہ اب وہ مجھے ذبح کرے گا۔ مگر اس نے مجھے گھسیٹ کر غار کے ایک حصے میں پھینک دیا۔ میری رسیاں کھول دیں اور دروازے کو پھر اسی مضبوط چٹان سے بند کردیا۔ اب مجھے یقین آگیا کہ اس نے مجھے کل کے کھانے کے لئے رکھ چھوڑا ہے۔
رات جب کافی گزرگئی تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی مجھے ہلا رہا ہے۔ دیکھا تو وہی عورت میرے پاس کھڑی تھی۔ وہ کہنے لگی کہ:
’’اس آدمی نے خوب شراب پی لی ہے، اب یہ نشے میں مدہوش ہے، یہ کل صبح تجھے بھی ذبح کرکے کھائے گا، اگر اپنی جان بچا سکتے ہو تو بچالو، کسی طریقے سے اس چٹان کو ہٹا کر نکل جاؤ اور مجھے بھی بچالو۔‘‘
میں نے اس عورت سے پوچھا تو کون ہے؟ وہ کہنے لگی کہ میں فلاں علاقے کے فلاں قبیلے سے ہوں۔ میں اپنے رشتہ داروں سے دوسرے علاقے میں ملنے ایک قافلے کے ساتھ جا رہی تھی کہ یہ ڈاکو ادھر آنکلا۔ اس نے سارے قافلہ والوں کو مار کر ان کا سامان لوٹ لیا اور مجھے اپنے ساتھ یہاں لے آیا۔ یہاں یہ روزانہ لوگوں کو پکڑ کر لاکر ذبح کرکے کھاتا ہے۔
کوئی بھی آدمی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا، جس آدمی کے بارے میں سنتا ہے کہ وہ مشہور پہلوان، طاقتور اور بہادر ہے، اسے ہی جا کر قابو کرکے یہاں لاکر کھا لیتا ہے۔ اسے اس بات کا یقین ہے کہ اس طرح اس مردہ کی طاقت بھی اسے منتقل ہو جاتی ہے اور جب بھی باہر جاتا ہے تو میرے پاس کئی دن کے کھانے اور پینے کا سامان چھوڑ کر اس چٹان سے غار کا دروازہ بند کرکے چلا جاتا ہے۔
میں نے اس عورت سے کہا کہ یہ چٹان تو بہت بھاری ہے، اسے تو میں ہلا ہی نہیں سکوں گا۔ وہ عورت بولی خدا کے لئے کوشش کرو، میں اٹھا اور آکر چٹان کو زور سے باہر دھکیلنے لگا تو وہ سرک گئی۔ میں نے دیکھا کہ اس کے نیچے چھوٹے چھوٹے گول پتھر تھے، جس کی وجہ سے وہ لڑھکنے لگ گئی۔ مجھے تو یقین آگیا کہ خدا تعالیٰ مجھے بچانا چاہتے ہیں، پھر ہم دونوں نے مل کر زور لگایا تو وہ چٹان اتنی سرک گئی کہ ہم آسانی سے نکل سکتے تھے۔
پھر میں نے اس کی انتہائی مضبوط اور بھاری تلوار اٹھا کر دونوں ہاتھوں کی قوت لگا کر اس زور سے اس سوئے ہوئے شخص کی ٹانگوں پر ماری کہ اس کی ایک ٹانگ کٹ گئی اور وہ بیدار ہوگیا۔ اس نے مجھ پر حملہ کرنا چاہا، مگر نہ اٹھ سکا۔ میں نے دوسرا زور دار وار اس کے کندھے پر کیا، جس سے وہ نیچے گرگیا۔ تیسرا زور دا وار اس کی گردن پر کیا، جس سے اس کی گردن ہی الگ ہوگئی۔
اب میں غار کے اندر گھومنے پھرنے لگا۔ ہر طرف سونے چاندی کے ڈھیر لگے تھے۔ قیمتی ہیرے، جواہرات اور کپڑوں کا بھی کافی بڑا ذخیرہ تھا۔ میں نے وہ سب سمیٹا اور اس کی اونٹنی پر اس عورت کو لے کر وہاں سے چل پڑا۔ میں نے اپنے ساتھ کافی سارا زاد راہ وغیرہ بھی لے لیا تھا، کیونکہ مجھے راستے کا علم نہیں تھا کہ کتنے دن سفر میں لگیں گے۔ کافی دیر تک چلنے کے بعد ایک بستی میں پہنچا، جہاں میں نے وہ اونٹنی اور کافی سارا غلہ اور کچھ سامان اس عورت کو دے کر ان لوگوں کے حوالے کر دیا اور خود یہ سب مال و دولت لے کر آگیا۔ اس کے بعد میں نے توبہ کرلی کہ آئندہ لوٹ مار نہیں کروں گا۔ اس مال و دولت سے میں نے بہت سی زمین خریدی، مکانات بنائے اور آج تک اسے کھا رہا ہوں۔
حوالہ: (الفرج بعد الشدہ علامہ تنوخی 351 تا 356)/ موسوعۃ القصص الواقعیہ 391)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More