تثلیث سے توحید تک

0

کارلا بارٹیل (سکینہ) کا تعلق جرمنی سے ہے اور وہ اپنے زمانے کی مشہور فلم اسٹار اور نامور اسٹیج اداکارہ تھیں۔ مقامی فلموں کے ساتھ انہوں نے ہالی ووڈ کی بھی کئی فلموں میں کام کیا۔ جرمنی کے ہر حصے میں ان کے لاکھوں شیدائی موجود تھے، لیکن اس شہرت اور چمک دمک کے باوجود یہ مشہور اور حسین اداکارہ خود کو انتہائی غیر مطمئن محسوس کرتی تھی۔ اسے کسی ایسی چیز کی تلاش تھی، جو اس کی روح اور باطن کا خلاء پرُ کر دے، جو اس کی زندگی کو بامقصد اور بامعنی بنا دے اور جو اس کے دل کی بے چینیوں کا مداوا کر دے۔
خدا کا شکر کہ سکینہ (کارلا بارٹیل) کو یہ کھوئی ہوئی چیز صرف اسلام میں ملی۔ انہوں نے کس طرح اسلام قبول کیا؟ اسلام کی طرف سے ان کی جو درست اور اچھی راہنمائی ہوئی، اس کے بارے میں ہر ایک کا تجربہ منفرد اور بے مثال ہے۔ یہ تجربہ انہیں برسوں کی الجھنوں اور تلاش کے بعد ہوا اور جس تسکین کی تلاش انہیں عرصے سے تھی، وہ آخر کئی برسوں بعد اسلام کی صورت میں انہیں مل گئی۔
عرب نیوز کے جریدے ’’المسلمون‘‘ کا نمائندہ اس جرمن نومسلم خاتون سے ملا، جس نے فلم اور اسٹیج کی عظیم فنکارہ کی حیثیت سے اپنی شہرت کے بام عروج پر ہوتے ہوئے روحانی تسکین کی خاطر شہرت کا تاج اپنے سر سے اتار دیا تھا اور اسلام قبول کرکے اپنے خوبصورت نئے نام (سکینہ) کی طرح پرسکون گھریلو زندگی اختیار کر لی تھی۔ ان کے پاس مادی آرام و آسائش کی تمام فانی چیزیں موجود تھیں اور وہ لاکھوں لوگوں کی نگاہوں کا مرکز تھیں۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود وہ اپنے دل کی دُنیا میں ایک کمی محسوس کرتی تھیں۔ ایسی کمی جس نے اس اداکارہ کے اندر ایک زبردست روحانی خلاء پیدا کر دیا تھا۔
خدا نے کس طرح اس نیک فطرت خاتون کی رہنمائی کی اور کس طرح ایمان کی روشنی نے اس کے دل کو منور کرکے اس کی زندگی کو بامقصد بنا دیا؟ اسلام کے متعلق وہ اپنی کہانی اس طرح بیان کرتی ہیں:
میں نے برلن میں اداکاری کا فن سیکھا اور کئی ڈراموں میں اداکاری کی۔ میں نے ہالی ووڈ میں چار اور جرمنی میں دس سے زیادہ فلموں میں کام کیا تھا۔ اس طرح میرے پاس نہ دولت کی کمی رہی تھی، نہ شہرت کی۔ میرے لاکھوں پرستار تھے اور دنیا کی ہر سہولت اور عیش کی ہر چیز میسر تھی۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اس سب کچھ کے باوجود میری زندگی میں سکون اور سچی مسرت ناپید تھی اور باطنی اضطراب اور روحانی بے چینی مجھے ہر وقت ڈستی رہتی تھی۔ ایک بھیانک خلاء تھا، جس میں میں بھٹکتی رہتی تھی۔
تنگ آکر میں نے مذہب کی آغوش میں پناہ لینے کی کوشش کی۔ اتوار کو چرچ جانے لگی، لیکن اس بے چینی میں ذرا بھی کمی نہ آئی اور چرچ کی عبادت روحانی پیاس کا کوئی مداوا نہ کر سکی۔ بائبل کی تعلیم، عیسائیت کے عقائد اور مذہبی رہنمائوں کا کھوکھلا پن اپنے مذہب کی کوئی بات بھی مجھے مطمئن نہیں کر رہی تھی۔
تب میں نے سوچا کہ آخر سچائی کی تلاش میں خود کیوں نہ کروں؟ اس کے لیے جو بہترین طریقہ سمجھ میں آیا، وہ یہ تھا کہ دوسرے ملکوں کی سیاحت کرکے میں وہاں کے لوگوں میں گھل مل جاتی اور ان کی زندگیوں کا قریب سے مشاہدہ کرتی تھی۔ گوکہ حکومت کی جانب سے جرمنی میں دولت مند لوگوں کے ملک سے باہر جانے کی ممانعت کر دی گئی تھی۔ اس کے باوجود میں نے اپنے ایک شناسا کی مدد سے جو جرمن حکومت میں کام کرتا تھا، ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
اس نے مجھے باہر جانے کی اجازت دلا دی، ورنہ مجھے اپنے ملک سے باہر جانے کا موقع نہ ملتا۔ لیکن فرانسیسیوں
نے مجھے تیونس میں بند کرکے بے حد پریشان کیا، پھر کچھ عرصہ بعد مجھے شہر میں گھومنے پھرنے کا اجازت نامہ مل گیا۔ چند روز بعد میں مصر چلی گئی۔ قاہرہ میں مسجدوں کے میناروں سے بلند ہوتی اذانوں سے میں بہت متاثر ہوئی تھی۔ چنانچہ میرے دل میں اسلام سے متعلق زیادہ سے زیادہ جاننے کی خواہش پیدا ہوئی اور بڑھتے بڑھتے یہ خواہش ایک تڑپ کی صورت اختیار کر گئی۔
بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے !
اسلام سے تعارف ہوا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں مسلمان ہی پیدا ہوئی تھی۔ حالانکہ میرے ماں باپ عیسائی تھے اور انہوں نے مجھے بچپن سے رومن کیتھولک مذہب کے اصولوں کے مطابق تربیت دی تھی۔ عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث کے مطابق میرے والدین باپ بیٹے اور روح القدس کے ایک ہونے پر یقین رکھتے تھے، جس پر مجھے ہمیشہ شبہ ہوتا۔ اس کے علاوہ مجھے اس بات پر بھی یقین نہیں آتا تھا کہ خدا کا کوئی بیٹا ہوسکتا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More