دینی گفتگو پر عوض نہ لینا
خلیفہ سلیمان بن عبد الملک سے تفصیلی ملاقات کے بعد حضرت ابو حازمؒ ابھی اپنے گھر پہنچے ہی تھے کہ امیر المؤمنین نے دیناروں سے بھری تھیلی بھیجی اور ساتھ یہ لکھ کر بھیجا: ابو حازم! یہ رقم آپ کے خرچ کے لئے ہے، آپ اس کو خرچ کیجئے، میرے پاس آپ کے لئے اور بھی بہت سارا مال ہے، بعد میں بھی بھیجوں گا۔
آپؒ نے وہ تھیلی واپس بھیج دی اور ساتھ ہی یہ تحریر لکھ کر بھیجی۔
’’امیرالمؤمنین! میں خدا کے حضور پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ آپ کے سوالات جو آپ نے مجھ سے کئے، وہ مذاق بن جائیں اور میرا جواب باطل اور بے کار ہو جائے۔ اے امیر المؤمنین، خدا کی قسم! میں یہ مال تو آپ کے لئے پسند نہیں کرتا، اپنے لئے کیسے پسند کر سکتا ہوں۔
امیر المؤمنین! اگر یہ دینار میری اس دینی گفتگو کے بدلے میں دیئے گئے ہیں، جو میں نے آج آپ سے کی ہے، تو میں اس مجبوری میں بھی مردار اور خنزیر کا گوشت اس سے کہیں زیادہ بہتر سمجھتا ہوں۔ اور اگر آپ نے ویسے ہی بیت المال سے مجھے یہ مال دیا ہے، تو جتنا دیا ہے اتنا دوسرے مسلمانوں کو بھی برابر برابر دیا جائے۔‘‘
عبد الرحمن اور ان کے بیٹے کو نصیحت
حضرت ابو حازم سلمہ بن دینارؒ کا گھر علم حاصل کرنے والوں اور تربیت کا دلی شوق رکھنے والوں کیلئے رحمت کا مرکز بنا ہوا تھا۔ وہاں بھائیوں اور طالب علموں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جاتا تھا۔
ایک دن عبد الرحمٰن بن جریرؒ اپنے پیارے بیٹے کے ساتھ ابوحازمؒ کے پاس آئے، ادب و احترام سے بیٹھے، سلام عرض کیا اور دنیا و آخرت کی بہتری کے لئے دعا کی درخواست کی۔
آپؒ نے سلام کا جواب بڑے اچھے انداز میں دیا، دونوں کو خوش آمدید کہا، پھرسلسلۂ گفتگو جاری ہوا، عبد الرحمٰن بن جریرؒ نے ان سے کہا: ’’اے ابو حازم! دل کے تالوں کو کھولنے کی چابیاں کیا ہیں؟‘‘
فرمایا: ’’انسانی ضمیر اگر زندہ ہو تو کبیرہ گناہ سے بچنے کا جذبہ دل میں بھرا ہوا ہوتا ہے۔ جب انسان گناہ چھوڑنے کا پختہ ارادہ کر لیتا ہے تو اس کے دل کے تالے کھل جاتے ہیں اور یہی دل کے تالے کی چابی ہے کہ کبیرہ گناہ سے انسان بچتا رہے اور توبہ استغفار کرکے رب تعالیٰ سے معافی مانگ لے۔ ہاں! اگر کسی بندہ کا دل دکھایا ہے تو اس سے بھی معافی مانگ کر اس کو راضی کرلے۔‘‘
پھر فرمایا: ’’اے عبد الرحمن! میری بات کبھی نہ بھولنا کہ دنیا کے تھوڑے مال و دولت نے آخرت کی بہت زیادہ نعمتوں سے ہمیں غافل کر رکھا ہے، ہر وہ نعمت جو رب تعالیٰ کے قریب نہ کریں، وہ بلاشبہ ایک عذاب ہے۔‘‘
بیٹے نے سوال کیا: ’’ہمارے علماء بہت ہیں، ہم ان میں سے کس کی پیروی کریں؟‘‘
فرمایا: ’’بیٹا! آپ اس عالم کی پیروی کریں، جو تنہائی میں رب تعالیٰ سے ڈرتا ہو اور کسی عیب میں ملوث ہونے سے بچتا ہو، جس نے جوانی ہی میں اپنی اصلاح کرلی ہو اور بڑھاپے تک انتظار نہ کیا ہو، (کہ بعد میں اصلاح کرلوں گا اور برے کاموں سے مکمل طور پر بچتا ہو)۔‘‘
طلبہ کیلئے نصیحت
حضرت ابوحازمؒ نے فرمایا: ’’بیٹا! یہ بات خوب اچھی طرح جان لیں کہ ہر دن جس میں آفتاب طلوع ہوتا ہے، طالب علم کے سینے میں دو قسم کے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ آج کا پورا دن محنت سے علم حاصل کرنے میں گزار لوں اور دوسرا یہ کہ چلو آج مدرسہ یا اسکول کی چھٹی کرلوں، آج گھومنے چلا جاؤں، آج فلاں جگہ چلا جاؤں وغیرہ۔
دو جھگڑنے والوں کی طرح خواہشات اور علم کی کشمکش ہوتی ہے، جس دن ہمت کرکے علم سیکھنے کے ارادے کو اور محنت اور پابندی کے فوائد کو سوچ کر خواہشات پر غالب آجاتا ہے، وہ دن اور لمحے اس کے لئے غنیمت ہوتے ہیں۔ اور جس دن اس کی خواہشات علم پر غالب آجائیں، تو وہ دن اس کے لئے نقصان اور بوجھ کا ہوتا ہے۔
عبدالرحمٰن بن جریرؒ نے پوچھا: ’’ابو حازم! ترجمہ: آپ ہمیں اکثر و بیشتر خدا کا شکر بجا لانے کی تلقین فرماتے رہتے ہیں، مجھے یہ بتائیں شکر کی حقیقت کیا ہے۔‘‘
فرمایا: ’’ہمارے جسم کے تمام اعضاء رب تعالیٰ کی نعمت ہیں، لہٰذا ہر عضو کی نعمت کا شکر کرنا ہم پر واجب ہے۔‘‘
عبدالرحمٰن نے پوچھا: ’’آنکھوں کی نعمت کا شکر کیا ہے۔‘‘
فرمایا: ’’اگر اپنی آنکھوں سے کوئی خیر و بھلائی دیکھو اس کا اظہار کرو اور اگر کوئی برائی دیکھو تو اسے چھپاؤ، یہی آنکھوں کی نعمت کا شکر ہے۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post