یہ ہیں رسول اقدسؐ جو ایک طویل انتظار اور شدید بے چینی کے بعد مدینہ منورہ کے بالائی حصے سے نمودار ہو رہے ہیں اور ادھر مدینہ منورہ کے باشندے ہیں، جو نبی رحمتؐ اور آپؐ کے رفیق حضرت ابو بکر صدیقؓ کی ملاقات کی خوشی میں اپنے گھروں کے دروازوں اور مکانوں کی چھتوں پر جمع ہو رہے ہیں، ان کے ہونٹوں پر تہلیل و تکبیر کے سرمدی کلمات مچل رہے ہیں اور اس طرف مدینہ کی کم سن اور بھولی بھالی بچیاں اپنے ہاتھوں میں دف اور آنکھوں میں شوق انتظار لیے نکل پڑی ہیں، ان کے لبوں پر خیر مقدمی نغمات ہیں، جنہیں وہ ایک ساتھ مل کر بار بار دہرا رہی ہیں۔
ترجمہ: ’’ثنیۃ الوداع کی گھاٹیوں سے طلوع ہو کر ماہ کامل ہمارے سامنے آ گیا، جب تک بلانے والا رب تعالیٰ کی طرف بلاتا رہے، ہمارے اوپر اس کا شکر واجب ہے۔‘‘
حضورؐ کی آمد:
اور یہ رہا رسول کریمؐ کا جلوس جو دو رویہ صف بستہ کھڑے ہوئے لوگوں کے درمیان سے گزرتا ہوا نہایت سبک خرامی اور نرم روی کے ساتھ آگے بڑھتا چلا آ رہا ہے، جس کو مشتاق روحوں اور پُر شوق دلوں نے اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے، جس کے اوپر اشک ہائے مسرت و نشاط کے گہرہائے آبدار اور تبسم ہائے سرور و انبساط کے گلہائے مشکبار نچھاور کئے جا رہے ہیں۔ لیکن حضرت عقبہ ابن عامر جہنیؓ رسول اکرمؐ کے اس جلوس کا مشاہدہ نہ کر سکے۔ وہ آپؐ کے استقبال کی سعادت سے محروم رہ گئے۔ یہ محرومی ان کے حصے میں اس لئے آئی کہ وہ اپنی بکریوں کو لے کر انہیں چرانے کے لئے وادیوں کی طرف نکل گئے تھے، کیونکہ بھوک و پیاس کی وجہ سے ان کے ہلاک ہو جانے کا اندیشہ تھا جب کہ یہ چند بکریاں ہی ان کا کُل سرمایہ تھیں، جو دنیا کے متاع فانی میں سے ان کی زیر ملکیت تھا۔
فرحت و سرور کی وہ کیف پرور فضا جو مدینہ پر چھائی ہوئی تھی، بہت جلد اس کی دور و قریب کی وادیوں تک عام ہو گئی، سارے کہسار و بیابان اس کی ضیا پاشیوں سے جگمگا اٹھے اور اس کی خوش خبریاں حضرت عقبہ بن عامر جہنیؓ کے کانوں تک بھی پہنچ گئیں، حالانکہ وہ مدینہ سے دور وسیع میدانوں میں اپنی بکریاں چراتے پھر رہے تھے۔
حضور اکرمؐ سے ملاقات:
نبی کریمؐ سے ان کی ملاقات کیسے اور کن حالات میں ہوئی۔ اس کی تفصیل ہم انہی کے الفاظ میں ہدیہ قارئین کرتے ہیں:
’’رسول اکرمؐ مدینہ تشریف لائے تو میں اس وقت اپنی بکریوں کے ساتھ تھا۔ آپؐ کی تشریف آوری کی خبر جیسے ہی مجھے ملی، میں نے بکریوں کو وہیں چھوڑا اور بلا تاخیر آپؐ سے ملنے کے لیے مدینہ روانہ ہو گیا اور بارگاہ نبویؐ میں پہنچ کر عرض کیا ’’خدا کے رسولؐ! آپ میری بیعت قبول فرمائیں گے؟‘‘
’’تم کون ہو؟‘‘ آپؐ نے پوچھا۔
’’ عقبہ ابن عامر جہنی‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’کون سی بیعت تمہیں پسند ہے۔ تم بیعت اعرابیہ کرو گے یا بیعت ہجرت؟‘‘ آپؐ نے پوچھا۔
’’بیعت ہجرت‘‘ میں نے جواباً عرض کیا۔
اس کے بعد رسول اکرمؐ نے مجھ سے بھی انہی باتوں پر بیعت لی، جن پر اور مہاجرین سے لی تھی، پھر میں آپؐ کی خدمت میں ایک رات گزار کر واپس اپنی بکریوں کے پاس آ گیا۔
حصول علوم نبوت کا شوق:
ہم لوگ کل بارہ آدمی تھے، جو اسلام لانے کے بعد اپنی بکریاں چرانے کے لئے مدینہ منورہ سے دور … وادیوں میں اقامت گزین تھے، ایک دن ہمارے ایک ساتھی نے کہا ’’اگر ہم رسول اکرمؐ سے دین سیکھنے اور ان کے اوپر آسمان سے نازل ہونے والی وحی کو سننے کے لئے باری باری خدمت اقدس میں حاضری نہ دے سکیں تو ہمارے اندر خیر کی کوئی بات نہ ہوگی۔ مناسب یہ ہے کہ روزانہ ہم میں سے ایک آدمی مدینہ جائے اور اپنی بکریاں ساتھیوں کی حفاظت میں چھوڑ جائے۔‘‘
میں نے کہا ’’تم لوگ یکے بعد دیگرے رسول اکرمؐ کے پاس جائو اور ہر جانے والا اپنی بکریاں میرے حوالے کر جایا کرے…‘‘ میں اپنی بکریوں کے بارے میں بہت محتاط رہتا تھا اور انہیں کسی کے سپرد کر جانا مجھے گوارا نہ تھا۔
’’اس کے بعد سے روزانہ صبح کو میرا ایک ساتھی حضور اکرمؐ کی خدمت میں جاتا اور اس کی بکریوں کو چرانے کی ذمہ داری میں انجام دیتا اور واپسی پر وہ تمام باتیں اس سے پوچھ کر معلوم کر لیتا جو وہاں سے سن کر اور دیکھ کر وہ آتا تھا۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post