عباس ثاقب
افتخار صاحب نے آس پاس کے ماحول کا جائزہ لے کر سب کچھ ٹھیک ہونے کا اطمینان کیا اور بات شروع کی تو ان کے لہجے میں گہری سنجیدگی کے ساتھ تشویش بھی نمایاں تھی۔ ’’جمال، پہلی بات تو یہ سمجھ لو کہ میں تمہیں جو کچھ بتانے جارہا ہوں، وہ انتہائی رازداری کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جو ذمہ داری تمہیں سونپی جا رہی ہے، وہ اتنی نازک اور کٹھن ہے کہ ہم تمہاری کامیابی کی کچھ زیادہ امید نہیں رکھتے‘‘۔
ان کی بات نے میرے وجود میں سنسنی کی لہر دوڑا دی۔ تاہم میں نے ان کی گفتگو میں دخل اندازی نہیں کی ’’اس مشن کی ابتدائی کوشش میں ہی اب تک ہمارے دو بندے ان کے ہتھے چڑھ چکے ہیں، جن میں سے ایک شہادت سے ہم کنار ہو چکا ہے۔ اور دوسرا ابھی تک ان کے قبضے میں ہے، جس کی زبان کھلوانے کی سر توڑ کوشش کی جارہی ہے۔ اللہ کرے وہ وطن کے رازوں کی حفاظت میں کامیاب رہے‘‘۔
اتنا کہہ کر وہ کئی لمحوں تک خاموش رہے۔ ان کی نظریں بظاہر سینما کے پردے پر جمی ہوئی تھیں، جہاں فلم کے شاعر شکیل بدایونی کے بعد پس پردہ گلوکاروں استاد بڑے غلام علی خان، لتا منگیشکر، محمد رفیع اور شمشاد بیگم کے نام دکھائے جا رہے تھے۔ انہوں نے بدستور سنجیدہ لہجے میں کہا ’’معاملے کی سنگینی سمجھانے کے لیے پہلے مجھے تمہیں معاملے کا کچھ پس منظر سمجھانا پڑے گا۔ یہ توتمہیں پتا ہوگا کہ ہندستان کی تقسیم کے وقت دونوں ممالک کے درمیان وسائل کی تقسیم میں پاکستان کے ساتھ شدید ناانصافی کرتے ہوئے نہ صرف خزانے میں سے ہمارا جائز حصہ نہیں دیا گیا تھا، بلکہ دفاعی ساز و سامان میں سے بھی برائے نام حصہ دیا گیا۔ اور جو کچھ ہمیں ملا وہ بھی اس حد تک فرسودہ اور ناقص تھا کہ اس کے ذریعے اپنے دفاع کا تصور بھی مشکل تھا‘‘۔
میں نے اثبات میں گردن ہلاکر ان کی تائید کی۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھی ’’اس پر ہندوستانی حکومت، بلکہ اس ملک کے بیشتر سیاسی رہنماؤں نے بھی پاکستان سے اپنی دشمنی کا کھلا اظہار کرتے ہوئے بتا دیا کہ وہ اس تقسیم کو قبول نہیں کرتے اور ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے متفقہ نظریے کے تحت پاکستان کو بہت جلد ایک بار پھر ہندوستان کا حصہ بنالیا جائے گا۔ ‘‘
یہ سب مجھے بخوبی معلوم تھا، لہٰذا میں نے افتخار صاحب کی گفتگو میں مداخلت نہیں کی۔ ’’حضرت قائد اعظم کی زیر قیادت بننے والے ہمارے ملک کو پہلے دن سے ہی اپنی بقا کی فکر پڑگئی۔ لیکن محدود مالی وسائل کی وجہ سے عالمی مارکیٹ سے جدید اسلحہ کا حصول ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا پاکستان کو امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کے ساتھ مختلف دفاعی معاہدوں میں شامل ہونا پڑا، جس کی وجہ سے حاصل ہونے اسلحے اور خصوصی جنگی طیاروں اور جنگی بحری جہازوں کی آمد کی بدولت ہمارا دفاع معقول حد تک مستحکم ہوگیا‘‘۔
انہوں نے قدرے توقف کے بعد کہا ’’بس اتنا سمجھ لو اب سے کچھ عرصہ پہلے تک ہم اس قابل تھے کہ خاصے موثر انداز میں ہندوستان کی مسلح افواج کی کسی جارحیت کا جواب دے سکیں، بلکہ بعض دفاعی شعبوں، خصوصی جنگی بحری جہازوںکے اعتبار سے تو ہم ان پر برتری رکھتے تھے اور ہمارے ساحل ان کی طرف سے کسی بحری یلغار سے محفوظ تھے۔ لیکن اب صورتِ حال اس قدر خطرناک رخ اختیار کر چکی ہے کہ ہمارے وطن کا بحری دفاع ایک طرح سے دشمن کا آسان نشانہ بننے کا امکان پیدا ہوگیا ہے‘‘۔
افتخار صاحب نے ایک بار پھر اردگرد نظریں دوڑائیں اور فکر بھرے لہجے میں کہا ’’ہم دفاعی اعتبار سے تو ہندوستان کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، لیکن مالی وسائل میں اسے غیر معمولی برتری حاصل ہے۔ اپنے قبضے میں موجود اسی وافر دولت اور برطانوی سرکار میں اپنے قریبی دوستانہ تعلقات سے کام لیتے ہوئے ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے چار سال پہلے برطانوی حکومت کو انتہائی سستے داموں ایک طیارہ بردار بحری جہاز ہندوستان کو فروخت کرنے پر آمادہ کر لیا‘‘۔
افتخار صاحب کی بات کی سنگینی سمجھنا میرے لیے مشکل نہیں تھا۔ انہوں نے میرے پہلو بدلنے سے میرے اضطراب کا اندازہ لگاتے ہوئے کہا ’’دراصل برطانیہ نے جنگ عظیم دوم کے آخری حصے میں سولہ طیارہ بردار بحری جہازوں کی تیاری شروع کی تھی۔ لیکن جنگ ختم ہونے پر ان کی تیاری ادھوری چھوڑدی گئی تھی۔ ان میں سے ایک ایچ ایم ایس ہرکولیس برس ہا برس سے لگ بھگ تین چوتھائی تیار حالت میں وہاں کے جہاز سازی کے ادارے میں موجود تھا۔ برطانوی حکومت نے بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مترادف وہ طیارہ بردار جہاز ہندوستان کو اونے پونے فروخت کر دیا‘‘۔
اتنا کہہ کر افتخار صاحب نے ایک بار پھر سینما اسکرین پر نظر ڈالی، جہاں مغل اعظم نوعمر شہزادہ سلیم کو اس کی بے اعتدالیوں پر طمانچہ مارکر سپہ سالار درجن سنگھ کے حوالے کر رہا تھا، تاکہ وہ میدانِ جنگ کی سختیوں سے عقل سیکھ سکے۔ ادھر اضطراب سے میری بری حالت تھی۔ افتخار صاحب نے بالآخر بات آگے بڑھائی ’’یہ طیارہ بردار جہاز خریدنے کے بعد بھارت نے برطانیہ ہی میں اسے مکمل کروانا شروع کر دیا، جہاں بالآخر تین سال میں بن کرنہ صرف یہ پوری طرح تیار ہو چکا ہے، بلکہ ہندستان بھی پہنچ چکا ہے۔ اور بہت جلد اسے باقاعدہ طور پر بھارتی بحریہ کے حوالے کر دیا جائے گا‘‘۔
قدرے توقف کے بعد انہوں نے دوبارہ بتانا شروع کیا ’’اس طیارہ بردار جہاز کو ہندوستانیوں نے آئی این ایس وکرانت کا نام دیا ہے اور یہ اس وقت یہیں بمبئی کے ساحل پر ایک محفوظ بندرگاہ میں اپنی باقاعدہ نقاب کشائی کا انتظار کر رہا ہے۔ یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ اس دیو قامت بلا کی بھارتی بحریہ میں شمولیت کے ساتھ ہی دونوں ملکوں کی بحری طاقت کا توازن بالکل الٹ پلٹ ہو چکا ہے اور کسی ممکنہ جنگ میں ہمارے وجود کے دشمن اس ملک کو ہم پر غیرمعمولی برتری حاصل ہوگی‘‘۔
افتخار صاحب نے جو کچھ بتایا تھا، اس کی سنگینی مجھ پر پوری طرح واضح تھی۔ لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ مجھ جیسا معمولی انسان اتنے بڑے اور تباہ کن جہاز سے اپنے وطن کی حفاظت کے لیے کیا کر سکتا ہے۔ تاہم میں نے خود ان کی زبانی سننے تک انتظار کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا ’’مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ہماری حکومت کے پاس برطانیہ کو یہ طیارہ بردار جہاز ہندوستان کو فروخت کرنے سے روکنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ تو دوسری طرف ہمارے وسائل جواباً ایسی کسی خریداری کی اجازت نہیں دیتے۔ بالفرض ہم پہلے سے مفلوک الحال اپنی قوم کو بھوکا مارکر اتنی دولت مختص کر بھی دیں تو اس کا امکان بھی کم ہی ہے کہ ایسے غیر معمولی جہاز تیار کرنے والا کوئی ملک ہندوستان کی ناراضی مول لیتے ہوئے ہمارا آرڈر قبول کرنے پر تیار ہوگا‘‘۔
انہوں نے گہرا سانس لیا ’’عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ اس جہاز کی آمد کے ساتھ ہی ہندوستانی حکومت کے لہجے میں جارحیت خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ یہ لوگ کشمیر کے معرکے میں ہونے والے نقصانات پر اتنے برسوں بعد بھی تلملا رہے ہیں اور ہمیں ڈر ہے کہ یہ ہمارے ملک پر حملہ کرنے کا کوئی بہانہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اگر جنگ چھڑی تو اس طیارہ بردار جہاز کی مدد سے نہ صرف مشرقی پاکستان کا محاصرہ کر کے تباہی مچا سکتے ہیں، بلکہ ہمارے دارالحکومت کراچی کو بھی اس سے شدید خطرہ لاحق ہے۔ لہٰذا وہ نوبت آنے سے پہلے ہمیں جلد از جلد اس مصیبت کا توڑ ڈھونڈنا ہے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭