کیس کا فیصلہ ملک کی سیاسی تاریخ کا نقشہ بدل سکتا ہے-فائل فوٹو
کیس کا فیصلہ ملک کی سیاسی تاریخ کا نقشہ بدل سکتا ہے-فائل فوٹو

فارن فنڈنگ کیس اہم مرحلے میں داخل ہو گیا

امت رپورٹ:
حکمراں جماعت تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ سے متعلق تحقیقات کرنے والی اسکروٹنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ بالآخر الیکشن میں جمع کرادی ہے۔ یوں یہ کیس اہم مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ جس کے بعد الیکشن کمیشن میں اس کیس کی سماعت کا اہم ترین مرحلہ شروع ہونا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کھلی سماعت کی صورت میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ کیس کے درخواست گزار نے جن خفیہ اکائونٹس کے بارے میں پٹیشن دائر کر رکھی ہے۔ اس کی ہوشربا تفصیلات عوام کے سامنے آنی شروع ہوجائیں گی۔ اور آخر کار سات برس سے زیر التوا یہ کیس اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھے گا۔
یاد رہے کہ تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ غیر ملکی فنڈنگ کا کیس خود پارٹی کے بانی ارکان میں سے ایک اکبر ایس بابر نے سات برس پہلے الیکشن کمیشن میں دائر کیا تھا۔ جس کے بعد سے یہ ایک نہ ختم ہونے والی کہانی بنا ہوا ہے۔ تقریباً ساڑھے تین برس پہلے مارچ دو ہزار اٹھارہ میں الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو ہونے والی غیر ملکی فنڈنگ کی تحقیقات کے لئے ایک اسکروٹنی کمیٹی بنائی تھی۔ کمیٹی کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ایک ماہ کے اندر تحقیقات مکمل کرکے اپنی سفارشات پر مشتمل رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرائے۔ تاہم یہ ایک ماہ، برسوں پر محیط ہوگیا۔ ایک ماہ کا عرصہ گزرنے پر اسکروٹنی کمیٹی نے مزید دو ماہ کی مہلت مانگی تھی۔ اس کے بعد اس ڈیڈ لائن میں لامحدود توسیع ہوتی رہی۔ اس دوران اسکروٹنی کمیٹی پی ٹی آئی کے اکائونٹس تک رسائی سے متعلق درخواست گزار کے وکیل کی استدعا کو مسترد کرتی رہی۔

گزشتہ برس جون میں کیس کا دوسرا اہم مرحلہ اس وقت آیا۔ جب الیکشن کمیشن نے اپنے ایک آرڈر کے ذریعے اسکروٹنی کمیٹی کو پابند کیا کہ وہ اپنی رپورٹ ہر صورت سترہ اگست دو ہزار بیس تک جمع کرا دے۔ جس پر اسکروٹنی کمیٹی نے اس بار اپنی رپورٹ مقررہ وقت پر جمع کرا دی۔ لیکن دس روز بعد ہی ستائیس اگست کو الیکشن کمیشن نے یہ کہہ کر رپورٹ مسترد کر دی کہ کمیٹی نے ٹی آر او پر پوری طرح عمل نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ یہ نامکمل اور ناقص رپورٹ ہے۔ جس میں پوری طرح تحقیقات نہیں کی گئی ہیں۔

اس معاملے سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ درخواست گزار کے وکیل شروع سے ہی اسکروٹنی کمیٹی کے طرز عمل کی شکایت کرتے رہے ہیں اور ان کا الزام رہا ہے کہ اسکروٹنی کمیٹی حکمراں پارٹی کے دبائو پر شفاف اور غیر جانبدارانہ طریقے سے معاملے کی تحقیقات نہیں کر رہی۔ بعد ازاں الیکشن کمیشن کی جانب سے کمیٹی کی رپورٹ مسترد کئے جانے سے درخواست گزار کے اس موقف کو تقویت ملی۔ رپورٹ مسترد ہونے کے بعد اسکروٹنی کمیٹی نے الیکشن کمیشن سے مزید چھ ہفتے مانگے۔ اس سارے چکر میں دو ہزار اکیس کا سال شروع ہوگیا۔ کیس کا تیسرا اہم مرحلہ اس وقت آیا جب اپریل دو ہزار اکیس کو الیکشن کمیشن نے درخواست گزار کا یہ مطالبہ تسلیم کرلیا کہ پی ٹی آئی نے اپنے دفاع میں جو دستاویزات الیکشن کمیشن میں جمع کرائی ہیں۔ اس تک درخواست گزار کے وکیل اور آڈیٹرز جنرل کو رسائی دیدی جائے۔ الیکشن کمیشن کے اس آرڈر پر بادل نخواستہ اسکروٹنی کمیٹی نے درخواست گزار کے وکیل اور دو آڈیٹر جنرل کو ان دستاویزات تک رسائی تو دیدی۔ لیکن یہ شرط رکھی کہ آڈیٹرز جنرل کو اپنے ساتھ لیپ ٹاپ یا موبائل فون لانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ جبکہ دستاویزات کے جائزے کے لئے درخواست گزار کے آڈیٹرز جنرل کو محض چالیس گھنٹے دیئے گئے تھے۔ جو بعد ازاں بڑھاکر پچپن گھنٹے کردیئے گئے۔ ان پچپن گھنٹوں میں آڈیٹرز جنرل کو سینکڑوں دستاویزات کا جائزہ لے کر مینول اعداد و شمار جمع کرنے تھے۔

اس ساری کارروائی سے آگاہ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اتنی کڑی شرائط پر دستاویزات کے جائزے کی اجازت دینے کے باوجود درخواست گزار نے پی ٹی آئی کے جن اٹھائیس غیر ملکی اکائونٹس اور ملازمین کے چار اکائونٹس کا ذکر کیا تھا۔ اس سے متعلق دستاویزات پھر بھی آڈیٹرز جنرل کے سامنے نہیں رکھی گئیں۔ اور پوری طرح چھپائی گئیں۔ درخواست گزار کے بقول یہ وہ خفیہ بینک اکائونٹس ہیں۔ جنہیں پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں ڈیکلیئر نہیں کیا ہے۔ تاہم پچپن گھنٹے کے دوران درخواست گزار کے آڈیٹرز جنرل کو الیکشن کمیشن میں جمع پی ٹی آئی کی جتنی بھی دستاویزات دیکھنے کو ملیں۔ ان کی مدد سے انہوں نے ایک سو صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار کی۔ اور رواں برس تیرہ جولائی کو اپنی یہ رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرادی تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے ایک سو صفحات پر مشتمل جو رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی ہے۔ اس میں دو ارب بیس کروڑ روپے کے گھپلوں اور بے قاعدگیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ تاہم اس میں وہ بھاری رقوم شامل نہیں۔ جو ملازمین کے نام پر قائم چار بینک اکائونٹس میں بڑے پیمانے پر آتی رہیں۔ پارٹی فنڈ اور چندے کے لیے ملازمین کے نام پر کھولے گئے ان بینک اکائونٹس کو خود پی ٹی آئی بھی تسلیم کرتی ہے۔ جبکہ اس کے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں۔ رپورٹ میں ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے ہر برس سولہ بینک اکائونٹس چھپائے۔ ان میں سے بیشتر بینک اکائونٹس کے دستخط کنندگان عمران خان اور عارف علوی سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنما ہیں۔

الیکشن کمیشن میں سو صفحات پر مشتمل درخواست گزارکی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آڈیٹرز جنرل سے اٹھائیس غیر ملکی بینک اکائونٹس اورملازمین کے نام پر بنائے گئے چار اکائونٹس کی تفصیلات مخفی رکھی گئیں۔ ان چاروں اکائونٹس میں بیرون ملک سے لاکھوں ڈالر آتے تھے۔ جو اگلے روز پاکستانی کرنسی میں تبدیل کرکے دوسرے اکائونٹس میں جمع کرادیئے جاتے تھے۔ ان اکائونٹس میں اس کے سوا اور کوئی ٹرانزیکشن نہیں ہوتی تھی۔ یعنی انہیں صرف ان ہی مقاصد کے لئے کھولا گیا تھا۔ اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں کہ یہ رقم کہاں خرچ کی جاتی رہی۔ آڈیٹرز جنرل کے بقول اس قسم کی سرگرمی عموماً منی لانڈرنگ کے زمرے میں بھی آتی ہے۔
اس حوالے سے ’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر درخواست گزار اکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ ان چاروں بینک اکائونٹس کے بارے میں خود ان ملازمین نے انہیں آگاہ کیا تھا۔ اکبر ایس بابر بتاتے ہیں ’’ایک روز پی ٹی آئی اسلام آباد سیکریٹریٹ میں ملازم طاہر اقبال، نعمان افضل، محمد ارشد اور محمد رفیق میرے گھر آئے اور کہا کہ وہ بہت پریشان ہیں۔ ان کے ساتھ بڑی زیادتی ہو رہی ہے۔ کیونکہ پارٹی قیادت نے ان کے نام پر بینک اکائونٹس کھول رکھے ہیں۔ جن میں بڑے پیمانے پر بیرون ملک سے رقوم آرہی ہیں۔ اگلے روز ہی یہ رقوم چیکوں پر ان کے دستخط کراکے نکال لی جاتی ہیں۔ ان بینک اکائونٹس کے پرنسپل سگنیٹری (جن کے دستخطوں سے یہ بینک اکائونٹس آپریٹ ہو رہے ہیں) عمران خان، عارف علوی، سیف اللہ خان نیازی، سردار اظہر طارق خان، کرنل (ر) یونس علی رضا، عامر محمود کیانی، طارق شیخ اور ڈاکٹر ہمایوں مہمند ہیں‘‘۔ اکبر ایس بابر کے بقول کمپیوٹر آپریٹر، ٹیلی فون آپریٹر اور اس جیسی دیگر ذمہ داریاں سنبھالنے والے یہ ملازمین اب بھی پی ٹی آئی اسلام آباد سیکریٹریٹ میں ملازم ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے اسکروٹنی کمیٹی کو اپنی رپورٹ جمع کرانے کی اگلی ڈیڈ لائن رواں برس اکتیس مئی دی تھی۔ تاہم اس میں تاخیر ہوتی رہی اور آخر کار تین روز قبل یہ رپورٹ اسکروٹنی کمیٹی نے جمع کرادی ہے۔ ذرائع کے بقول اب الیکشن کمیشن اس رپورٹ کا جائزہ لے گا۔ اگر اس رپورٹ پر وہ مطمئن ہوجاتا ہے تو پھر اگلا مرحلہ الیکشن کمیشن میں اس کیس کی سماعت کا ہوگا۔ اس کھلی سماعت کے دوران ہی پی ٹی آئی کے اٹھائیس خفیہ غیر ملکی بینک اکائونٹس اور ملازمین کے ناموں پر کھولے گئے چار بینک اکائونٹس کی تفصیلات بھی عوام کے سامنے آئیں گی۔ جنہیں اب تک درخواست گزار کے وکلا اور آڈیٹرز جنرل سے پی ٹی آئی چھپاتی رہی ہے۔ یوں یہ سماعت دھماکہ خیز ہو سکتی ہے۔

درخواست گزاراکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں معلوم کہ اسکروٹنی کمیٹی نے الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی اپنی سفارشات میں کیا کہا ہے۔ تاہم ماضی کے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو وہ اسکروٹنی کمیٹی کے طرز عمل پر مطمئن نہیں ہیں ۔کیونکہ تمام تر کوششوں کے باوجود کمیٹی نے اٹھائیس بینک اکائونٹس اور ملازمین کے بینک اکائونٹس کی تفصیلات کو ان کے وکلا سے چھپائے رکھا۔ اور تحریری طور پر یہ لکھ کر دیا کہ ان تفصیلات تک درخواست گزار کو رسائی دینے کے حوالے سے پی ٹی آئی کو اعتراض ہے۔ تاہم پھر بھی انہیں امید ہے کہ اس اہم کیس کی سماعت شروع ہونے کے بعد نہ صرف یہ معاملہ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھے گا۔ بلکہ عوام کے سامنے ہوشربا انکشافات بھی آئیں گے۔