آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانوں کو دہشت گردی یا جاسوسی کیلئے استعمال نہ ہونے کی کلین چٹ دیدی اور دعویٰ کیا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے بھارتی حاضر سروس جاسوس افسر کلبھوشن یادیو کو پھانسی نہیں ہوگی اور وہ باعزت طور پر اپنے ملک بھارت چلا جائے گا۔ یہ دعویٰ انہوں نے خفیہ ایجنسیوں اور ان کے کارناموں کے بارے میں شائع ہونیوالی مشترکہ کتاب ’دا سپائی کرونیکل: را، آئی ایس آئی اینڈ دی الیوژن آف پیس‘ کی تصنیف کے دوران را کے سابق چیف اے ایس دولت اور بھارتی صحافی آدتیہ سنہا کے ساتھ بات چیت کے دوران کیا۔
محمد اسد درانی نے کتاب کے دوسرے مصنف بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دولت کی اس رائے کو درست قرار دیا کہ کل بھوشن کا کیس پاکستان نے خود خراب کیا ہے، اگر اس پر خاموشی رکھی جاتی تو بہتر ہوتا اور اس کیس کو خیر سگالی کیلئے استعمال کر کے دونوں ممالک تعلقات بہتر بنا سکتے تھے۔ صرف اتنا ہوتا کہ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل ناصر جنجوعہ اجیت دووال کو ایک فون کرتے اور کہتے کہ آپ کا آدمی ہمارے پاس ہے، آپ زیادہ فکر نہ کریں، اس کا خیال رکھا جائے گا، لیکن آئی ایس آئی اس کو سیدھا ٹیلی ویژن پر لے آئی، ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اے ایس دولت کا مزید کہنا تھا کہ بھارت نے بھی ایسی غلط حرکت کارگل جنگ کے وقت کی تھی، جب اس نے جنرل پرویز مشرف اور جنرل عزیز کی گفتگو کو عوام کے سامنے پیش کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے بگڑے تعلقات مزید خراب ہوئے۔
اسد درانی نے کہا کہ میں اپنے دوست کی بات سے متفق ہوں کہ بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو بالاخر واپس چلا جائے گا، کیونکہ یہ کیس ہم نے خراب کر لیا ہے۔ درانی کے مطابق اصل چیز را پر یہ ثابت کرنا تھا کہ ہم ان کو کہاں پکڑ سکتے ہیں اور ان کی ناک رگڑ سکتے ہیں۔ اس سے اگلے مراحل اور کلبھوشن کو لٹکائے جانے کا معاملہ انہوں نے محض وقت کا ضیاع قرار دیا۔
کتاب میں حریف خفیہ تنظیم کے سربراہ کو بھائی کہہ کر مخاطب کرنے والے اسد درانی نے بھائی چارے کا حق بھی ادا کیا اور افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانوں کی تعداد انتہائی کم بتاتے ہوئے ان کی شر انگیزی کو بھی کلین چٹ دیدی اور کہا کہ وہاں سے جاسوسی نہیں ہوتی۔ سابق آئی ایس آئی سربراہ کا کہنا تھا کہ وہاں محض 4 قونصل خانے اور ایک سفارتخانہ ہے، ہمیں ان کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کرنی چاہیے۔ پاکستان میں کچھ لوگ جن کے پاس درست معلومات نہیں ہیں، وہ بعض اوقات 9، 18 یا 23 کے بارے میں بتاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھارتیوں نے 4 قونصل خانوں سےجاسوسی کی تو ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ہم اس کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ بہرحال وہاں سے جاسوسی نہیں کی جاتی۔ چند تعمیراتی کمپنیاں یادیو جیسے چند افراد کو بھرتی کرسکتی ہیں۔ اس کا پتہ لگانا مشکل ہے۔
اسد درانی کا کہنا تھا کہ ہم نے بھارتی اثررسوخ کو غیرضروری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ پریشانی یادیو کے کیس میں ایرانی پہلو سے ہوتی ہے۔ اس کے باعث پاکستان یہ سوچنے پر مجبور ہوا ہے کہ جب ملا اختر منصور ایران میں کسی سے ملاقات کر کے واپس آ رہا تھا تو ایرانی انٹلیجنس نے اس کی گاڑی میں ایک چپ لگا دی تھی، جس سے امریکیوں کو اسے ٹریک کرنے میں مدد ملی۔ حتٰی کہ اگر یہ سچ بھی ہے تو میں اس کے بارے میں بات نہیں کروں گا۔ اس کے باعث پاکستان اور ایران کے درمیان مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
اسد درانی نے کل بھوشن یادیو کا معاملہ ایرانی صدر کے سامنے اٹھانے کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ مسئلہ بڑا پیچیدہ ہے۔ بلوچستان میں تو بھارت سمیت بہت سی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں۔ امریکی، روسی، ایرانی اوراسرائیلی جاسوس بھی سرگرم ہیں، جس پر امرجیت سنگھ دولت نے لقمہ دیا کہ اور چینی؟ جنرل صاحب نے فوراً کہا ہاں چینی بھی موجود ہیں، یہ خط بہت سے معاملات کی وجہ سے اہم ہے، کچھ لوگ ایران اور پاکستان کے درمیان بچھائی جانے والی پائپ لائن اور اقتصادی کوریڈور کو سبوتاژ کرنے کیلئے سرگرم عمل ہیں تو کچھ اسے بچانے کیلئے۔
سابق آئی ایس آئی سربراہ نے بھارتی جاسوس پکڑے جانے کی سنگینی کم کرنے کیلئے پٹھان کوٹ معاملہ بھی پاکستان سے جوڑ دیا اور کہا کہ بھارتی دباؤ کم کرنے کیلئے کلبھوشن کو استعمال کیا گیا۔ دولت کے استفسار پر کہ کیا خطرہ تھا درانی نے کہا کہ بھارت پٹھان کوٹ کا معاملہ پاکستانی اسٹیبشلمنٹ سے جوڑ رہا تھا، جسے کاؤنٹر کرنے کیلئے بتایا گیا کہ بھارت بھی بلوچستان میں یہ کام کر رہا ہے۔ دولت نے اس موقع پر یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ کل بھوشن یادیو بھارتی جاسوس تھا، تاہم یہ بھی کہا کہ اگر یہ را کی کارروائی تھی تو بہت اچھی تھی۔
(یہ خبر جمعہ کو روزنامہ ’’امت‘‘ میں شائع ہوئی)