اسٹنگ آپریشن نےبھارتی صحافت کو بےنقاب کردیا

بھارت میں آزادی صحافت بھی اب مشکوک ہوگئی ہے اوراسے بھی اب بھاری رقوم کے عوض مخالفین کیخلاف استعمال کرنے کا ایک بہترین ذریعہ سمجھا جانے لگا ہے۔

بھارت کی ایک آن لائن میڈیا آگنائزیششن ’’ کوبرا پوسٹ ‘‘ نے برسراقتدارجماعت بی جے پی کے مخصوص ایجنڈے کو فروغ دینے کے سلسلے میں بھارتی میڈیا کے ایک ایسے اسکینڈل کا انکشاف کیا ہے جوعام طورپرنظروں سے اوجھل ہی رہتا ہے۔ اس میں نہ صرف میڈیا آرگنائزیشن بلکہ میڈیا اداروں کے سرکردہ افسران ، مالکان اور سینئر صحافی بھی ملوث پائے گئے ہیں جو بھاری رقم کے عوض ایک خاص سیاسی ایجنڈے کو فروغ دیتے پر رضامند نظرآتے ہیں

’’ کوبرا پوسٹ ‘‘ اگرچہ ایک چھوٹا ادارہ ہے لیکن اپنی مخصوص رپورٹوں اورانکشافات کے باعث ایک متنازعہ لیکن مقبول آن لائن میڈیا کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس ادارے نے خود کو ایک غیرمنافع بخش ادارہ ظاہرکیا ہےاور یہ سمجھتا ہے کہ بھارت میں صحافت کو پیسوں کے عوض مخصوص ایجنڈے کو فروغ دینے اور مخالفین کیخلاف استعمال کرنے کیلئے ایک اہم ذریعے کے طورپرکام میں لایا جاسکتا ہے۔

کوبرا پوسٹ نے ’’ آپریشن 136‘‘ کے نام سے اپنی ایک تہلکہ خیزاسٹوری میں بھارتی میڈیا کے مخصوص کردار کو ظاہر کیا ہے۔ کوبرا پوسٹ نے اپنی ویب سائٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت کی بڑی میڈیا آرگنائزیشنز بھاری رقوم کے عوض  نہ صرف ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو خراب کرنے پرآمادہ ہیں بلکہ ایک مخصوص سیاسی جماعت کے ایجنڈے کو فروغ دینے میں دلچسپی رکھتی ہیں اور سب کچھ بھاری رقوم کے عوض کیا جاسکتا ہے۔

اس سلسلے میں بھاری رقم کے عوض کسی سیاسی رہنما یا عوامی شخصیت کی گفتگو کے وڈیو کلپ کو مخصوص انداز میں ایڈٹ کرکے اس کے سیاق و سباق کو بھی نہایت چالاکی سے تبدیل کرکے نشر کیا جاسکتا ہے ، اور دیکھنے اور سننے والے کو کان و کان خبر نہیں ہوگی۔ یوں ان کے مقاصد بھی پورے ہوجائیں گے۔

اس آپریشن کے سلسلے میں کوبڑا پوسٹ کے ایک ادھیڑ عمر کے رپورٹرنے بھیس بدل کربھارت کی 25 سے زائد بڑی میڈیا آرگنائزیشنز سے ایسی ہی ایک ڈیل کیلئے رابطہ کیا ۔ اس نے خود کو ایک مالدار ہندو ظاہر کیا اورآئندہ عام انتخابات میں بی جے پی کی فتح کو یقینی بنانےکیلئےانھیں ایک بڑی رقم کی پیشکش کی اوراس کے عوض اپنے مخصوس ایجنڈے پرعملدرآمد کی بات کی۔

اس سلسلے میں اس نے تین مرحلوں پر مشتمل حکمت عملی تیارکی اوراسے میڈیا مالکان کے سامنے رکھا۔ ان میں پہلا مرحلہ یہ تھا کہ میڈیا میں ہندوتوا کا ’’سافٹ امیج ‘‘ یعنی ایسا رخ پیش کیا جائے کہ دراصل یہی ہندو عقائد کا اصل نظریہ ہے اوراس سلسلے میں کرشنا دیوتا اورگیتا کے حوالے دیکر انتہا پسند ہندو مذہب کی تعلیمات کو فروغ دیا جائے۔

دوسرے مرحلے میں جی جے پی کی حریف جماعت کانگریس اوراس کے رہنما راہول گاندھی کیخلاف ایک محاذ تیارکیا جائے جس کا فائدہ بی جے پی کو پہنچے ، اور تیسرے اورآخری مرحلےمیں انتہا پسند ہندوؤں کے حامیوں کے ذریعے کانگریس اوراس کے حامیوں کیخلاف تعصب اورنفرت پرمبنی تقریر کو فروغ دیا جائے اور یہ تمام کام ٹی وی چینلزاوراخبارات کے ذریعے کیا جائے۔اس اقدام کا مقصد آئندہ عام انتخابات میں ووٹرز کو کانگریس کیخلاف اکسا کربی جے پی کو فائدہ پہنچایا جائے۔

اس سلسلسے میں بھارتی میڈیا کے سرکردہ ادارے ’’ بینیٹ کولمین ‘‘ سے رابطہ کیا گیا جس کے ذیلی اداروں میں ٹائمز آف انڈیا جیسے کثیراشاعت اخبار بھی شامل ہے جس کی اشاعت بھارت کے علاوہ بیرون ملک بھی ہےاورلوگوں میں ایک اچھی ساکھ بھی قائم ہے۔

اس بہروپیے رپورٹر نے کثیرالاشاعت اخبارانڈین ایکسپریس اورانڈیا ٹو ڈے ٹی وی چینل کے حکام سے بھی رابطہ کیا ۔ اس کے علاوہ دیگرعلاقائی اخبارات اور ٹی وی چینلزسے بھی رابطے کئے گئے اور تقریباً سب نے ہی بھاری رقوم کے عوض اس منصوبے پرعملدرآمد پر رضامندی ظاہر کی۔

میڈیا کے بعض بڑے اداروں نے تو بھاری رقوم کے عوض اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ٹاک شوز ، مخصوس گیتوں پر مشتمل وڈیوز اوراس نوعیت کے دیگر پروگرامز تیار کرنے کی بھی تجاویز پیش کیں ۔

کوبرا پوسٹ کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا جرم ہےجس کا فی الحال ارتکاب تو نہیں کیا گیا لیکن اس کیلئے میڈیا ادروں میں بھاری رقوم کے عوض رضامندی ضرورپائی گئی جوایک بہت بڑا مخفی اسکینڈل ہے جسے مغرب میں منظرعام پر لانے کی آزادی حاصل ہے لیکن بھارت میں صرف چند آن لائن ویب سائیٹس پر ہی اسے سامنے لایا جاسکا ۔

آن لائن ویب سائیٹس پراس خفیہ رپورٹنگ پر مشتمل یہ  اسکینڈل منظرعام پرلانے کے بعد بعض بڑے میڈیا اداروں نے اپنے ردعمل میں ایسے کسی کام میں اپنی رضامندی سے یکسرانکارکیا اورکہا کہ انھوں نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا اورانڈرکورفوٹیجز کو اپنے مخصوص مقاصد کے لئے ایڈٹ کرکے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایس طرح کا اسکینڈل منظرعام پر لانے کا مقصد بی جے پی کو بدنام کرنا بھی ہوسکتا ہے اور یہ بی جے پی مخالفین کا کام بھی ہوسکتا ہے ، لیکن کوبرا پوسٹ کی خفیہ وڈیوزان میڈیا مالکان کے جھوٹ کا پول کھولنے کیلئے کافی ہیں ۔ ان ہی میں سے ایک وڈیو میں اخبارٹائمز آف انڈیا کے پبلشر وینیٹ جین کو اس منصوبے پرعملدرآمد کیلئے حامی بھرتے اور رقم کیلئے بارگیننگ کرتے دکھایا گیا ہے۔ جو اس کام کے عوض 15 کروڑ ڈالر کا مطالبہ کرتے ہیں اورپھربات چیت کے بعد اس کی نصف رقم پرتیار ہوجاتے ہیں۔

کوبرا پوسٹ کے اس خفیہ رپورٹنگ آپریشن میں حقائق کو میڈیا مالکان نے الزمات کے طورپرلیا ہے اوراس کی تردید بھی کی ہے لیکن بھارت میں عام انتخابات سے تقریباً ایک برس پہلے اس نوعیت کا اسکینڈل سامنے آنے سے بھارت میں میڈیا کی آزادی مسشکوک ضرور ہوگئی ہے اوراسے بھی ایک بکاؤ مال سمجھا جانے لگا ہے۔