اسلام آباد: کویت نے پاکستان سے تیل کی تجارت برقرار رکھنے کے لیے پاکستانی مارکیٹ اور تیل فراہم کرنے والے نیٹ ورک کے میعار میں اضافہ کر کے ہائی گریڈ گیس آئل یعنی ہائی اسپیڈ ڈیزل میں تبدیلی کا مطالبہ کردیا۔
واضح رہے کہ پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) اور کویت پیٹرولیم کمپنی (کے پی سی) کے درمیان معاہدے کے تحت پاکستان اپنی ضرورت کا نصف تیل کویت سے برآمد کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے کے پی سی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں استعمال ہونے والا یورو-2 میعار کے ڈیزل میں 500 پی پی ایم (سلفر ذرات فی ملین) ہوتے ہیں جو 2020 سے پی ایس او کو دستیاب نہیں ہوگا، کیوں کہ اس کے بعد کمپنی صاف ایندھن منصوبے کے تحت یورو-5 بنانا شروع کردے گی جس میں 10 پی پی ایم ہوتے ہیں۔
خیال رہے کہ پی ایس او ہر ماہ کویتی کمپنی سے 0.4 سے 0.5 ٹن تک ڈیزل برآمد کرتا ہے جبکہ پاکستان کی ماہانہ ضرورت 0.8 ٹن ہے، جس میں سے تقریباً 2 لاکھ 20 ہزار ٹن پاکستان میں موجود ریفائنریوں سے حاصل ہوتا ہے، اس صورتحال میں پی ایس او نے وزارت پیٹرولیم سے حالات کا جائزہ لینے اور قیمتوں پر نظر ثانی کی درخواست کی ہے۔
پی ایس او کی جانب سے کہا گیا کہ ملک میں ڈیزل کی حالیہ قیمت 500 پی پی ایم والے یورو-2 کے اعتبار سے مقرر ہے جسے جاری رکھنا ممکن نہیں ہوگا کیوں کہ 10 پی پی ایم سلفر کا حامل یورو-5 ڈیزل ایک ڈالر فی بیرل تک مہنگا ہے۔
اس ضمن میں ایک حکومتی عہدیدار کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے ایندھن کے میعار کو بہتر کرنے کی پالیسی کا اعلان کیا جاچکا ہے، جس میں کے پی سی کے میعارات کا بھی ذکر ہے تاہم مقامی ریفائینریوں کو اپ گریڈ کے لیے دی گئی مہلت پر کچھ تحفظات ہیں کیوں کہ اس کام کے لیے علیحدہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سلسلے میں آئل مارکیٹنگ کپنیوں، ریفائنریوں، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری (اوگرا) اور ہائیڈرو کاربن ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ آف پاکستان سے پیشہ وارانہ مہارت اور تکینیکی مدد کی درخواست کی جاچکی ہے۔
آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل جو آئل کمپنیوں کے لیے ایک سربراہی ادارے کے طور پر کام کرتی ہے، کے مطابق پاکستان کی پیٹرولیم آئل لبریکینٹ (پی او ایل) کی ضرورت، رواں برس اضافے کے بعد 27 ملین ٹن ہونے کا امکان ہے، جو آئندہ 5 سالوں میں 17.5 فیصد اضافے کے بعد 32 ملین ٹن ہوجائے گی۔
اس سلسلے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ مقامی مارکیٹ میں مستقبل قریب میں فی الحال یورو-5 نامی جدید ایندھن کا استعمال ہوتا نظر نہیں آرہا کیوں کہ گاڑیوں کی سالانہ جانچ پڑتال، لازمی قرار دی جانے والی مرمت، دھواں چھوڑتی پبلک ٹرانسپورٹ اور سامان ترسیل کرنے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی عموماً پاکستان میں نہیں کی جاتی۔