لاہور: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ انصاف میں تاخیر کی ایک وجہ عدلیہ کی نااہلی بھی ہے لہذا ہمیں اپنے گربیان میں جھانکنا پڑے گا۔
لاہور میں سپریم کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ آج سب سے زیادہ تنخوا جج کی ہے، ایک جج پر یومیہ خرچ 55 ہزار روپے ہے لیکن ججز کے پاس مقدمات کئی کئی دن زیر التواء رہتے ہیں، جب جج ذمہ داری پورے نہیں کریں گے تو فیصلوں میں تاخیر ہوگی۔
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ججز کئی کئی دن تک مقدمات کی سنوائی نہیں کرتے ہیں اور تاریخیں ڈال دی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ دور چلا گیا جب ایک مقدمے میں کئی پشتیں گزرجاتی تھیں، آج لوگوں کو جلد انصاف چاہیے اور ہم نے قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ قانون شہادت معاشرے میں انصاف کے آج کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا، کیا آپ اس دور میں جانا چاہتے ہیں جس میں آپ کو انصاف میسر نہ آسکے یا جلد میسر نہ آسکے؟
ان کا کہنا ہے کہ ججوں کو قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے مگر قوانین کی بھی تجدیدکرنی ہوگی کیوں کہ آج بھی 19 ویں صدی کے قانون شہادت پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں اور آج بھی دستاویز پر لکھا ہوتا ہے خاتون پردہ نشین ہے۔
انہوں نے کہا کہ جوڈیشل اکیڈمی میں آنے والے ججوں کو سول قوانین کا علم نہیں ہوتا، قوانین میں ترامیم کرنا ہوں گی اور جدید ذرائع سے استفادہ حاصل کرنا ہوگا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انصاف میں تاخیر کی ایک وجہ عدلیہ کی نااہلی بھی ہے لہذا ہمیں اپنے گربیان میں جھانکنا پڑے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ آج شناخت اور ملکیت جیسے بنیادی حقوق بھی محفوظ نہیں ہیں اور منشا بم جیسے لوگ جائیدادیں کھا جاتے ہیں، کیا یہ بنیادی حق کی خلاف ورزی نہیں؟ ایک اوورسیز پاکستانی جب مدد مانگنے آتا ہے تو آپ کہتے ہیں سول کورٹ چلے جاؤ۔
چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ جب میں بابا رحمتے کا تذکرہ کرتا تھا تو مذاق میں لیا جاتا تھا لیکن بابا رحمتے ایک مصنف کا کردار ہے جس کا فیصلہ لوگ سرجھکا کر تسلیم کرتے ہیں لہذا بابا رحمتے یعنی عدلیہ کے احترام کے بغیر کوئی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔