بلیک واٹر کی جانب سے دیا گیا اشتہار جس میں واپسی کا اعلان کیا گیا ہے
بلیک واٹر کی جانب سے دیا گیا اشتہار جس میں واپسی کا اعلان کیا گیا ہے

بلیک واٹر نے واپسی کا اعلان کردیا – پاکستان میں دہشت گردی کا خطرہ

کرائے کے قاتل کے طور پر کام کرنے کے لیے بدنام امریکہ کی متنازعہ سیکورٹی کمپنی بلیک واٹر نے ہتھیاروں کے ایک عالمی میگزین میں پورے صحفے کا اشتہار شائع کرایا ہے جس میں کمپنی نے اعلان کیا  ہے کہ وہ واپس آرہی ہے۔ اس اعلان اور امریکی حکومت کے بعض حالیہ فیصلوں کے سبب واشنگٹن سے ماسکو تک یہ خبریں پھیل گئی ہیں کہ امریکہ نے افغانستان اور مشرق وسطیٰ کی جنگیں بلیک واٹر کو ٹھیکے پر دے دی ہیں اور اسی وجہ سے افغانستان اور شام سے اپنے فوجی نکال رہا ہے۔

بلیک واٹر کی جانب سے اشتہار بندوقوں کے لیے مشہور میگزین ری کوائل (Recoil) میں دیا گیا۔ پورے صفحے کا اشتہار سیاہ رنگ کا ہے جس پر صرف یہ لکھا ہے، We are coming (ہم آرہے ہیں) ۔ اس عبارت کے نیچے بلیک واٹر کا مخصوص لوگو  ہے جو بلیک واٹر کے نام اور اس کے مخصوص علامت بھیڑیے کے پنچے کے نشان پر مبنی ہے۔

یہ اشتہار ری کوائل میگزین کے جنوری 2019 کے شمارے میں شائع ہو  رہا ہے۔

یاد رہے کہ بلیک واٹر نے 2000 کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں عراق اور افغانستان میں اپنی غیرقانونی کارروائیوں کی وجہ سے کافی بدنامی کمائی تھی۔ عراق کے شہر فلوجہ میں اس کے کرائے کے جنجگو شہریوں کے قتل عام میں ملوث رہے۔ افغانستان میں موجود اس کے نجی فوجی امریکی افواج کی مدد کرتے رہے  جبکہ مبینہ طور پر اس تنظیم نے پاکستان میں کئی دہشت گرد کارروائیاں کی۔ اکتوبر 2009 میں پشاور کے قصہ خوانی بازار ایک ہولناک بم دھماکے سے سو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے اور اس دھماکے میں بلیک واٹر کا نام لیا گیا تھا۔

نام بدلتی تنظیم

2009 میں ہی یہ انکشاف بھی ہوا کہ بلیک واٹر کے اہلکاروں کو ڈرون حملوں میں بھی استعمال کیا گیا۔ غیرقانونی سرگرمیوں کے باعث جب دبائو حد سے بڑھا تو اس کمپنی نے اپنا نام بدل کر ژی ورلڈ وائڈ رکھ لیا۔

یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ژی ورلڈ وائڈ کے علاوہ بلیک واٹر کا ایک اور جنم کانسٹیلیس (Constellis) کی صورت میں بھی ہوا تھا۔ بلیک واٹر نے شمالی کیرولینا میں 4 ہزار ایکڑ پر پھیلا اپنا تربیتی مرکز کانسٹیلیس کو فروخت کیا تھا۔ یہ امریکہ میں کسی بھی نجی سیکورٹی کمپنی کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ خود امریکہ دیگر ممالک میں ایسی مراکز کو دہشت گردی کے کیمپ قرار دیتا ہے۔

بلیک واٹرکے منظر عام سے ہٹنے کے بعد بھی کانسٹیلیس افغانستان میں سرگرم رہی اور اب بھی وہاں موجود ہے۔ آسٹریلین جریدے نیوز کے مطابق کابل ایئرپورٹ کے قریب کانسٹیلیس کا مرکز کیمپ انٹیگریٹی کے نام سے موجود ہے اور امریکی جریدے ملٹری ٹائمز نے بتایا ہے کہ اس کمپنی نے حال ہی میں اپنے اڈے میں توسیع کر کے مزید 800 افراد کو ٹھہرانے کی جگہ بنائی ہے۔

جنگوں کی نجکاری

بلیک واٹر کی واپسی کا سب سے پہلے انکشاف بھی ملٹری ٹائمز نے کیا۔ جریدے کا کہنا تھا کہ مستعفی ہونے والے امریکی وزیر دفاع جیمس میٹس فوجیوں کے انخلا کے مخالف تھے اب وہ جا رہے ہیں جبکہ بلیک واٹر واپس آرہی ہے۔

جریدے نے خیال ظاہر کیا کہ افغانستان اور دیگر علاقوں میں جنگ کی ’’نجکاری‘‘ کی جا رہی ہے۔

ملٹری ٹائمز کی رپورٹ کے جواب میں کانسٹیلیس نے وضاحت کی کہ اس کا بلیک واٹر سے کوئی تعلق نہیں، اس نے صرف تربیتی مرکز خریدا تھا جبکہ بلیک واٹر کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر ایرک پرنس کی خدمات کانسٹیلیس کے لیے حاصل نہیں کی گئیں۔

تاہم حقیقت یہ ہے کہ ایرک پرنس گذشتہ کئی ماہ سے امریکی جنگیں نجی کمپنیوں کے حوالے کرنے کی کھلے عام وکالت کرتے رہے ہیں۔ ان کی یہ کوششیں کسی سے چھپی نہیں ہیں۔ اکتوبر میں ایرک پرنس نے ایک افغان ٹی وی چینل پر افغان جنگ نجی شعبے کو دینے کی تجویز دی تھی۔ اس کے بعد وائس آف امریکہ نے اپنی ایک رپورٹ میں زور دیا تھا کہ ایرک پرنس کی یہ تجویز مسترد کردی گئی ہے۔

بلیک واٹر کا سربراہ ایرک پرنس
بلیک واٹر کا سربراہ ایرک پرنس

امریکی اور آسٹریلوی جرائد کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلیک واٹر کی یہ تجویز مسترد نہیں ہوئی تھی بلکہ بظاہر اس پر کام آگے بڑھ چکا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ تشویشناک بات ایرک پرنس کا اثر و رسوخ ہے۔ نہ صرف وہ امریکی انتظامیہ کے ساتھ قریبی روابط رکھتے ہیں بلکہ آسٹریلوی جریدے نیوز کے مطابق ان کی بہن بیٹسی ڈیوس ٹرمپ انتطامیہ میں شامل ہیں۔ ان کے پاس وزیرتعلیم کا قلمدان ہے۔

ایرک پرنس این بی سی ٹی وی کو انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں افغانستان سے تمام نیٹو فوجیوں کو بھی واپس بلا لیا جائے۔ ایرک کا دعویٰ ہے کہ افغان جنگ نجی کمپنی کو دی گئی تو چند ماہ میں ختم ہو جائے گی۔

پاکستان میں دہشتگردی کی نئی لہر کا خطرہ

امریکی نجی کمپنی کے سربراہ نے یہ نہیں بتایا کہ جو جنگ لاکھوں امریکی و نیٹو فوجی نہیں جیت سکے وہ بلیک واٹر کیسے جیتے گی۔ تاہم بلیک واٹر لڑائیوں میں دہشت گردی کے بد ترین ہتھکنڈے استعمال کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس دہشت گردی کی ذمہ داری کون لے گا۔

پشاور کے قصہ خوانہ بازار میں 29 ستمبر 2009 کو ہونےو الے ہولناک دھماکے کے بعد کا منظر۔ اس دھماکے میں بلیک واٹر کا نام آیا تھا
پشاور کے قصہ خوانہ بازار میں 29 ستمبر 2009 کو ہونےو الے ہولناک دھماکے کے بعد کا منظر۔ اس دھماکے میں بلیک واٹر کا نام آیا تھا

ایرک پرنس کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے جیمس میٹس نے کہا تھا کہ جنگ میں امریکی قوم اپنی ساکھ دائو پر لگاتی ہے، ایسے میں جنگوں کی نجکاری اچھا خیال نہیں۔

تاہم امریکہ کے ملٹری ٹائمز کے مطابق جیمس میٹس اب باہر ہوگئے ہیں اور امریکی محکمہ دفاع کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ’’بڑی تبدیلیاں‘‘ رونما ہونے والی ہیں۔

روس کے ممتاز میڈیا نیٹ ورک آر ٹی نے بھی امریکہ کی جنگیں بلیک واٹر کو ٹھیکے پر دیئے جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

افغانستان میں بلیک واٹر کی موجودگی کا نتیجہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کی نئی لہر کی صورت میں نکل سکتا ہے۔