تلسی گیبرڈ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کےساتھ
تلسی گیبرڈ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کےساتھ

ہندو مذہب اختیار کرنے والی خاتون کے امریکی صدر بننے سے پاکستان کو خطرہ

تلسی گیبرڈ کی ایک تصویر جو انہوں نے خود فیس بک پر شائع کی۔ تلسی گیبرڈ اپنی ہندو شناخت پر فخر محسوس کرتی ہیں۔
تلسی گیبرڈ کی ایک تصویر جو انہوں نے خود فیس بک پر شائع کی۔ تلسی گیبرڈ اپنی ہندو شناخت پر فخر محسوس کرتی ہیں۔

امریکہ میں 2020 کے صدارتی انتخابات میں پہلی مرتبہ ایک ہندو خاتون نے بھی حصہ لینے کا اعلان کردیا ہے۔ تلسی گیبرڈ امریکی کانگریس میں پہنچنے والی بھی پہلی ہندو خاتون تھیں۔

تاہم ان کے بارے دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ میں مقیم بیشتر ہندوئوں کے برعکس نہ تو وہ خود اور نہ ہی ان کے والدین بھارتی نژاد ہیں۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کی جانب سے تلسی کو ’’انڈین امریکن‘‘ قرار دینے کی کوشش کے باوجود تلسی یا ان کے والدین کا طور پر ہندوستان سے کوئی تعلق نہیں۔

لیکن بھارت تلسی گیبرڈ سے فائدہ اٹھانے کیلئے سرگرم ہوچکا ہے۔

تلسی گیبرڈ کا تعلق امریکہ کے جزیرے امریکن سمووا سے ہے۔ 1981 میں وہ اسی جزیرے پر پیدا ہوئیں۔ تلسی کے والدین بھی پیدائشی امریکی ہیں۔ تلسی دو برس کی تھیں جب ان کے والدین ریاست ہوائی منتقل ہوگئے۔ تلسی گیبرڈ کے والد مائیک گیبرڈ اور والدہ کیرول گیبرڈ کو سیاست کا شوق ہے اور وہ مقامی انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں۔ تاہم یہ امریکہ کا کوئی بڑا سیاسی خاندان نہیں۔ 2004 تلسی گیبرڈ 21 برس کی عمر میں ہوائی کی ریاستی کانگریس کے ایوان زیریں کی رکن منتخب ہوئیں۔ 2004 سے 2005 تک وہ عراق  اور پھر کویت میں فوجی خدمات انجام دے چکی ہیں۔

2013 میں تلسی گیبرڈ نے امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان کی پہلی ہندو رکن کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ یہ حلف انہوں نے ہندوئوں کی مقدس کتاب بھگوت گیتا پر اٹھایا جس پر وہ سرخیوں میں آئیں۔

تلسی گیبرڈ ہندوئوں کی مقدس کتاب بھگوت گیتا پر امریکی رکن کانگریس کے طور پر حلف اٹھاتے ہوئے
تلسی گیبرڈ ہندوئوں کی مقدس کتاب بھگوت گیتا پر امریکی رکن کانگریس کے طور پر حلف اٹھاتے ہوئے

ہندومت سے تعارف

تلسی گیبرڈ کے والد مائیک گیبرڈ کیتھولک عیسائی ہیں اور اب بھی چرچ جاتے ہیں۔ تاہم اپنے خاندان میں ہندومت کو متعارف کرانے والے بھی وہی تھے۔ امریکی میگزین نیویارکر کے مطابق 1965  میں ایک ہندو سوامی بھکتیودانتا نے امریکہ پہنچ کر ’’ہرے کرشنا‘‘ تحریک شروع کی جس نے امریکی مقرر اور یوگا ٹیچر کرس بٹلر کو متاثر کیا۔ 1970 کے عشرے کی ابتدا میں 23 سالہ مائیک گیبرڈ کرس بٹلر کے شاگرد بن گئے۔

مائیک گیبرڈ
مائیک گیبرڈ

کچھ عرسے بعد کرس بٹلر نے اپنے پیروکاروں پر مشتمل ایک مذہبی گروپ بنایا۔ 13 برس کی عمر میں تلسی گیبرڈ بھی اس گروپ میں شامل ہوگئیں۔ مائیک گیبرڈ کی اہلیہ کیرول پہلے ہی ہندومذہب قبول کر چکی تھیں۔ مائیک اگرچہ کیرتن جیسی ہندو رسومات میں حصہ لیتے ہیں لیکن خود کو ہندو نہیں بلکہ کیتھولک قرار دیتے ہیں۔ لیکن تلسی گیبرڈ اور کیرول خود کو نہ صرف ہندو کہتے ہیں بلکہ ہندو مذہبی تعلیمات اور رسومات پرعمل بھی کرتے ہیں۔

کرس بٹلر کے ہی زیر اثر مائیک اور کیرول نے اپنے بچوں کے ہندو نام رکھے جو بھکتی، جے، آریان، تلسی اور ورنداون ہیں۔

نیویارکر میگزین کے مطابق تلسی گیبرڈ کی پھٹی جلد، سیاہ بالوں اور ہندو نام کی وجہ سے انہیں اکثر بھارتی یا بھارتی نژاد والدین کی اولاد سمجھ لیا جاتا ہے تاہم ایسا نہیں ہے۔

فائدہ اٹھانے کیلئے بھارت سرگرم

بھارت اور اس کی سیاسی قیادت امریکہ میں مقیم ہندوئوں کو واشنگتن میں بھارتی اثرورسوخ استعمال کرنے کیلئے ہمیشہ سے استعمال کرتے چلے آئے ہیں اور وہ تلسی گیبرڈ کے بھارتی نہ ہونے کے باوجود انہیں زبردستی اپنا بنانے کیلئے سرگرم ہیں۔

تلسی کے سیاسی مسقبل میں بھارت کی دلچسپی 2013 سے ہی پیدا ہوگئی تھی جب وہ رکن کانگریس بنیں۔ 2014 میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکہ کا دورہ کیا تو تلسی کو بھارت آنے کی دعوت دے آئے۔

2015 میں تلسی گیبرڈ بھارت پہنچیں۔ تین ہفتے کے طویل دورے میں انہوں نے بھارتی سیاسی رہنمائوں، تاجروں حتیٰ کہ فوجی حکام سے بھی ملاقاتیں کیں۔

تلسی گیبرڈ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کےساتھ
تلسی گیبرڈ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کےساتھ

بھارتی ٹی وی چینلز نے تلسی گیبرڈ کے انٹرویوز کیے۔ گذشتہ برس جب امریکہ میں ایک تقریب کے دوران پہلی مرتبہ تلسی گیبرڈ کے صدارتی امیدوار بننے کا ذکر آیا تو بھارت کے سرکاری خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے اس کی خبر دی۔ تلسی گیبرڈ نے اس وقت خبر کی تصدیق یا تردید سے انکار کردیا تھا۔

صدارتی الیکشن سے پہلے کی دوڑ

گذشتہ جمعہ کو تلسی گیبرڈ نے صدارتی دوڑ میں شامل ہونے کا باقاعدہ اعلان کردیا۔ تلسی کا تعلق ڈیموکریٹ پارٹی سے ہے اور وہ ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

تاہم اس سے پہلے انہیں ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نامزدگی کی دوڑ جیتنا ہوگی۔ ڈیموکریٹ پارٹی میں اس وقت صدر کا الیکشن لڑنے کیلئے کافی زیادہ تعداد میں امیدوار سامنے آگئے ہیں۔ جیسا کہ امریکی صدارتی انتخابات کا طریقہ ہے۔ ان کو پہلے پارٹی کے سامنے موزوں ترین امیدوار ثابت کرنا ہوگا۔ جس کے بعد ہی پارٹی انہیں نامزد کرے گی۔

پاکستان کیلئے تشویش

امریکہ میں تلسی گیبرڈ کے بھارتی ہندو امریکیوں سے قریبی تعلقات ہیں۔ وہ انہیں اپنی تقریبات میں بلاتی ہیں اور ان کی تقریبات میں شرکت کرتی ہیں۔ تلسی سے متعلق شائع ہونے والے مضامین میں یہ بات تواتر سے کہی جاتی ہے کہ انہیں اعلیٰ عہدوں پر رہنے کا جنون ہے۔

تلسی گیبرڈ امریکہ کی صدر نہ بنیں تو بھی بھارت سے قریبی تعلقات کے باعث پاکستان کے لیے درد سر بن سکتی ہیں۔ اس سے پہلے بھارتی نژاد والدین کے یہاں پیدا ہونے والی نکی ہیلی اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کے طور پر پاکستان دشمنی دکھا چکی ہیں۔