الیکشن کمیشن مناسب سمجھے تو ہماری درخواست کو الیکشن ٹربیونل بھیج دے۔فائل فوٹو
الیکشن کمیشن مناسب سمجھے تو ہماری درخواست کو الیکشن ٹربیونل بھیج دے۔فائل فوٹو

’خلائی مخلوق سے سپہ سالار تک‘ – تحریک انصاف کے خطرہ محسوس کرنے کی وجہ

قومی اسمبلی میں پیر کی شام جب اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اپنے خطاب میں مہمند ڈیم پراعتراض اٹھائے تو جواب میں وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل ووڈا کی تڑپ تحریک انصاف کے معیار کے لحاظ سے بھی غیرمعمولی تھی۔

شہباز شریف تو یہ کہہ کر واک آؤٹ کر گئے کہ ایک حکومتی رکن نے گالی دی ہے تاہم فیصل ووڈا نے شہباز شریف کے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے جو پہلا ردعمل دیا وہ یہ تھا کہ مسلم لیگ(ن) کل تک تو ’خلائی مخلوق‘ کی بات کرتی تھی اب  ’’بات سپہ سالار تک چلی گئی ہے‘‘۔

شہباز شریف نے اپنے خطاب میں حکومت کی ناتجربے کاری کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کہا کہ بیرون ملک سے امداد ملے میں حکومت کا کوئی کردار نہیں، ملک کو قرضے آرمی چیف کی وجہ سے مل رہے ہیں۔

ایوان میں جانے سے پہلے پارلیمنٹ ہائوس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لیے حمایت کا عندیہ بھی دیا۔

اسمبلی کے اندر اور باہر کے یہ بیانات شاید فیصل ووڈا کیلئے غیرمتوقع تھے اسی لیے انہوں نے شہباز شریف کی طرف سے آرمی چیف کی تعریف پر حیرت کا اظہار کیا۔

لیکن حالیہ دنوں میں تحریک انصاف کو اس طرح کے ایک سے زائد جھٹکے مل چکے ہیں۔

تحریک انصاف کے اب تک کٹر حامی سمجھے جانے والے حسن نثار کی جانب سے ٹی وی پروگرام میں عمران خان پر سخت ترین تنقید اور ان کی اہلیت پر سوالات اٹھائے جانے کے دھچکے کے اثرات ابھی زائل نہیں ہوئے۔ تحریک انصاف کے حامی دیگر تجزیہ نگاروں کے انداز بھی حالیہ دنوں میں کچھ تبدیل ہوچکے ہیں۔

وزیر مملکت برائے امور داخلہ شہریارآفریدی ایک ڈیرھ ہفتے میں دو بار منشیات اسمگلنگ کے الزامات کی بازگشت میں آئے ہیں۔ پہلے ان کے بھتیجے کی گرفتاری کی خبر آئی اور پھر ایک زیر حراست کوکین اسمگلر نے ان کے ساتھ دوستی کا دعویٰ کردیا۔

بعض حکومتی وزرا کے بیانات بھی حیرت انگیز ثابت ہوئے ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے پیر کو نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کی سزا معطلی کیخلاف نیب اپیل سپریم کورٹ سے مسترد ہونے پر اطمینان کا اظہار کیا جس نے کئی لوگوں کو حیران کیا۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’’سپریم کورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر بالکل درست ہے، ضمانت کی منسوخی کیلئے غیر معمولی وجوھات درکار ہوتی ہیں۔‘‘

اگرچہ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ’’اس فیصلے سے عملی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی‘‘ یعنی نواز شریف جیل میں ہی رہیں گے۔ تاہم یہ آدھا سچ ہے۔ سزا معطلی کے نتیجے میں مریم نواز شریف بھی رہا ہوئی ہیں جنہیں کچھ عرصے سے مسلم لیگ کا متبادل قائد تصور کیا جارہا ہے۔

مریم نواز نے جیل سے رہائی کے بعد ’خلائی مخلوق‘ کا بیانہ ترک کردیا ہے جو مسلم لیگ(ن) نے جولائی 2018 کے انتخابات کے لگ بھگ اپنایا تھا۔ اگر سزا معطلی ختم ہوجاتی تو انہیں دوبارہ جیل جانا پڑتا لیکن ن لیگ کے بدلتے نرم بیانے کے ساتھ ان کی سیاست فی الوقت جاری رہے گی۔

مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کو بھی جے آئی ٹی کیس میں ریلیف ملنے کے نتیجے میں انہیں سیاسی گنجائش ملتی دکھائی دے رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو ملنے والی اس سیاسی گنجائش سے تحریک انصاف کو دستیاب کھلے میدان کا رقبہ کم ہوجائے گا۔

فواد چوہدری کی طرح ایک اورحیرت انگیز بیانیہ وزیر ریلوے شیخ رشید کی طرف سے آرہا ہے۔ تجزیہ کار مشرف زیدی کا کہنا ہے کہ تجریک انصاف کے ووٹرز کو ہوشیار رہنا چاہیئے، حکومت کو کابینہ کے اندر سے بدنام کیا جا رہا ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں انہوں نے اے آر وائی کے وسیم بادامی کو دیئے گئے شیخ رشید کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ شیخ رشید کا ہدف جہانگیر ترین، عثمان بزدار یا پرویز الٰہی نہیں (جو پہلے دوسری جماعتوں کا حصہ تھے) بلکہ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما  اسد عمر، عارف علوی اور عمران اسماعیل ہیں۔

یہ شیخ رشید ہی تھے جنہوں نے نومبر میں کہا تھا کہ مارچ تک جھاڑو پھر جائے گی۔ شیخ رشید نے یہ بات پی پی قیادت کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کے تناظر میں کہی تھی لیکن اپوزیشن رہنماؤں نے اس کی الگ تشریح شروع کردی اور مارچ میں جھاڑو کا ہدف تحریک انصاف کو قرار دیا جانے لگا۔

وسیم بادامی کو انٹرویو میں بھی شیخ رشید نے کہاکہ جنوری، فروری اور مارچ اہم مہینے ہیں، 30 مارچ تک معاملات ٹھیک ہو جائیں گے، 2019 پاکستان اور شاید دنیا کا سب سے اہم ترین سال ہے، پاکستان بحران سے نکل گیا تو اوپر چلا جائے گا، بحران ختم نہیں ہوا تو 180 ڈگری گر جائیں گے۔

چونکہ تحریک انصاف حکومت میں ہے اس لیے بحران کی ذمہ داری بھی اس پر عائد کی جاتی ہے۔ یہ باتیں بھی سنی جا چکی ہیں کہ اگر حالات بہتر نہ ہوئے تو جمہوریت کی بساط لپیٹ کر صدارتی نظام نافذ کیا جاسکتا ہے۔

لیکن جوابدہ پروگرام سے معروف ہونے والے صحافی افتخار احمد کا کہنا ہے کہ اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔  پیر کو ایک ٹوئیٹ میں انہوں نے کہا کہ ’’شطرنج کی نئی بازی۔ جمہوریت بچ گئی۔ انتخابات اسی سال ہوسکتے ہیں۔ تحریک انصاف کو ہر قسم کی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ مسلم لیگ(ن) سیاسی طاقت کے طور پر باقی ہے۔‘‘