کابل میں پیر کی شام دھماکے بعد منگل کی صبح افغان اہلکار گرین ویلج کے باہر تباہی کا جائزہ لے رہے ہیں(تصویر، اے ایف پی)
کابل میں پیر کی شام دھماکے بعد منگل کی صبح افغان اہلکار گرین ویلج کے باہر تباہی کا جائزہ لے رہے ہیں(تصویر، اے ایف پی)

افغان طالبان نے کابل دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی- پاکستان میں اہم رہنما گرفتار

افغانستان کے طالبان نے کابل میں غیرملکی سیکورٹی کمپائونڈ پر ٹرک بم حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے اور کہا ہے کہ حملے میں غیرملکیوں سمیت ’درجنوں‘ افراد مارے گئے۔ ایک افغان صحافی کے مطابق پیر کی شام ہونے والے اس حملے میں کم ازکم 9 غیرملکیوں سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اگرچہ افغان حکومت نے صرف 4 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔

دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ پاکستان میں طالبان کے ایک اہم رہنما کو گرفتار کرلیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ طالبان کے وزیر مذہبی امور حافظ محب اللہ کی گرفتاری کا مقصد افغان طالبان پر مذاکرات میں کابل حکومت کو شامل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔

یہ گرفتاری کابل دھماکے سے پہلے ہوئی۔ تاہم ان دونوں واقعات سے افغان امن عمل خطرے میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

کابل میں سیکورٹی کمپاؤنڈ پر ہولناک ٹرک بم حملہ- 9 غیرملکیوں سمیت 12 ہلاک

کابل میں پیر کی شام جلال آباد روڈ پر واقع غیرملکیوں کے سیکورٹی کمپائونڈ گرین ویلج پر بڑا ٹرک بم حملہ ہوا تھا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کی صبح ایک بیان جاری کیا جس میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی۔

بیان میں کہا گیا کہ حملہ 5 طالبان جنگجوئوں نے کیا جن میں ایک خودکش بمبار بھی شامل تھا۔ ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق پہلے خودکش بمبار لوگر سے تعلق رکھنے والے تقبلہ اللہ نے بارود سے بھرے ٹرک کو اڑا دیا جس کے بعد ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے لیس اس کے دیگر چار ساتھی طلحہ پکتیاوال، حمداللہ زابلی، اکرام کنڑی اور زبیر لوگر کمپائونڈ کے اندر داخل ہوئے اور وہاں موجود غیرملکیوں کو کئی گھنٹے تک نشانہ بناتے رہے۔

طالبان ترجمان نے گرین ویلین کو غیرملکی انٹیلی جنس مرکز قرار دیا اور کہا کہ حملے میں درجنوں غیرملکی فوجی، ان کے مددگار اور سیکورٹی اہلکار مارے جاچکے ہیں۔

گرین ویلج سیکورٹی کمپائونڈ کے اندر تباہی کا منظر۔ یہ تصویر طالبان ترجمان نے جاری کی
گرین ویلج سیکورٹی کمپائونڈ کے اندر تباہی کا منظر۔ یہ تصویر طالبان ترجمان نے جاری کی

ٹرک بم دھماکے سے قریب کے گھروں میں بھی شیشے ٹوٹ گئے تھے۔ اور بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے تھے۔ طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ گرین ویلج میں عوام کو آمدورفت اور رہائش کی اجازت نہیں دی جاتی، البتہ علاقے سے چند گھروں میں شیشہ ٹوٹنے سے عوام معمولی زخمی ہوئے ہیں، جو ہمارا ہدف نہیں تھے۔

ایک افغان صحافی زلمی افغان نے پیر کی شب بتایا تھا کہ کمپائونڈ سے 9 غیرملکیوں، ایک مترجم اور 2 سیکورٹی گارڈز کی لاشیں نکال لی گئی ہیں۔ جبکہ مزید لوگ ملبے کے نیچ دبے ہوئے ہیں۔

افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے بدھ کے روز بھی دھماکے سے صرف چار ہلاکتوں کی تصدیق کی۔ انہوں ںے کہاکہ مارے جانے والے ان افراد میں 3 فوجی اور ایک سویلین شامل ہے۔

افغانستان کے طلوع نیوز ٹی ی کے مطابق وزارت نائب ترجمان نصرت رحیمی نے کہا کہ جانی نقصان مزید بڑھ سکتا ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے چند تصاویر بھی جاری کیں جو بظاہر کمپائونڈ کے اندر کی ہیں۔

طالبان وزیر مذہبی امور پشاور سے گرفتار

ادھر بی بی سی پشتو نے خبر دی ہے کہ پاکستان نے پشاور سے طالبان دور کے وزیر مذہبی امور حافظ محب اللہ کو گرفتار کرلیا ہے۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ طالبان پر دبائو ڈالنے کے محب اللہ کو گرفتار کیا گیا ہے تاکہ وہ کابل حکومت کو مذاکرات میں شامل کر لیں۔

یاد رہے کہ افغان طالبان امریکہ سے ہونے والی بات چیت میں کابل انتظامیہ کو شامل کرنے سے مسلسل انکار کر رہے ہیں۔ ابوظہبی میں بھی انہوں نے وہاں موجود طالبان وفد سے ملاقات نہیں کی تھی جبکہ سعودی عرب اور قطر میں طے شدہ مذاکرات بھی اسی تنازعے پر منسوخ کردیئے تھے۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان نے طالبان پر زور دیا تھا کہ وہ اشرف غنی حکومت کو مذاکرات میں شامل کریں۔

بی بی سی نے طالبان ذرائع کے حوالے سے کہا کہ پاکستانی حکومت اور طالبان کے درمیان اس معاملے پر ایک اجلاس بحث مباحثے پر ختم ہوا اور اس کے بعد پاکستانی حکام نے کئی گھروں پر چھاپے مارے اور محب اللہ کو گرفتار کرلیا گیا۔

بی بی سی کا دعویٰ ہے کہ محب اللہ کئی برسوں سے پشاور میں مقیم تھے جبکہ ان چھاپوں کے بعد طالبان سربراہ ہیبت اللہ نے دیگر طالبان رہنمائوں کو محتاط رہنے کے پیغامات بھیجے ہیں۔

بی بی سی کا کہنا ہے کہ افغانستان کے لیے امریکی ایلچی زلمے خیل زاد کے دورہ پاکستان سے پہلے یہ گرفتاری طالبان کو ’پیغام‘ دینے کے لیے دی گئی ہے۔

افغان صدر کے نمائندے عمر داؤد زئی نے گذشتہ دنوں پاکستان کے دورے کے موقع پر امریکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ طالبان پر ’دبائو‘ ڈالنے کا مشورہ ہرگز نہیں دیں گے کیونکہ جب کسی پر بات کرنے کے لیے دبائو ڈالا جاتا ہے تو وہ بات ہی نہیں کرتا۔ طالبان کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں۔

طالبان رہنما کی گرفتاری بظاہر کابل دھماکے سے پہلے ہوئی ہے اور ان دونوں واقعات سے افغانستان کے امن عمل کو دھچکہ پہنچا ہے جس سے پاکستان کا امن و استحکام بھی وابستہ ہے۔