واقعے کی دو ایف آئی آرز درج کی گئیں۔ پہلی سی ٹی ڈی کی مدعیت میں اور دوسری لواحقین کی مدعیت میں
واقعے کی دو ایف آئی آرز درج کی گئیں۔ پہلی سی ٹی ڈی کی مدعیت میں اور دوسری لواحقین کی مدعیت میں

’سانحہ ساہیوال پر دو ایف آئی آرز سے معاملات الجھ گئے‘

ساہیوال میں ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب مقتولین کی لاشیں جی ٹی روڈ پر رکھ کر ورثا احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ احتجاج اتوار کی دوپہر ختم ہوا
ساہیوال میں ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب مقتولین کی لاشیں جی ٹی روڈ پر رکھ کر ورثا احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ احتجاج اتوار کی دوپہر ختم ہوا

ساہیوال میں پولیس کی فائرنگ سے ماں باپ بیٹی  سمیت 4 افراد کی ہلاکت پر اتوار کو مقتول خلیل کے بھائی کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی گئی جبکہ پولیس اپنی طرف سے پہلے ہی ایک ایف آئی آر درج کرچکی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ دو ایف آئی آرز سے معاملات الجھ گئے ہیں اور ملزمان کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

پولیس نے پہلے ایف آئی آر سی ٹی ڈی تھانہ لاہور میں ہفتہ کو درج کی تھی۔ اس ایف آئی آر میں پولیس کا مؤقف ہے کہ موٹرسائیکل پر سوار دہشت گردوں نے پولیس پر فائرنگ کی جب کہ ان کے ساتھ ایک کار بھی تھی جس میں سوار ایک شخص نے اتر کر پولیس پر فائرنگ کی۔ ایف آئی آر میں یہ بھی درج ہے کہ کار میں موجود افراد موٹرسائیکل سوار دہشت گردوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے جبکہ موٹرسائیکل سوار اور کار سے اتر کا ایک شخص فرار ہوگئے۔ اس ایف آئی آر پر 19 جنوری کی تاریخ ہے۔

ساہیوال کے تھانے میں اتوار 20 جنوری کو مقتول جلیل کے بھائی کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں کہا گیا کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں نے مقتولین کو ’اغوا‘ کیا اور اڈا قادر کے مقام پر لے جا کر ’شہید‘ کردیا۔

دوسری ایف آئی آر فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کی تعداد ’تقریباً‘ 16 لکھی گئی ہے۔ کسی ملزم کا نام نہیں ہے۔ یہ ایف آئی آر ساہیوال میں لاشوں سمیت جی ٹی روڈ پر دھرنے کے بعد درج کی گئی۔

ساہیوال میں لاشوں سمیت دھرنے کے بعد 16 سی ٹی ڈی اہلکاروں کیخلاف مقدمہ

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمداویس ایدووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک واقعے پرصرف  ایک ایف آئی آرہی درج کی جاسکتی ہے اور قانونی طورپر یہ یہی درست ہے اگر دوایف آئی آردرج کی گئی ہیں توان کاجائزہ لیا جا سکتا ہے ۔اس سے تحقیقات میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دو ایف آئی آرز کے بجائے ادارے کا مؤقف دیا جانا چاہیے۔

دوسری ایف آئی آر میں بھی کسی اہلکار کا نام نہ ہونے کے بارے میں انہوں نے کہاکہ اگر کسی دوسری ایف آئی آرمیں ملزمان کونامزدنہیں کیا گیا اوران کے نام چھپائے گئے ہیں تو ڈیوٹی روسٹرسے ان کے نام معلوم کیے جاسکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ سیکیورٹی ادارے کاکسی کی جان لینے کے لیے محض اسے دہشت گردکہ دیناکافی نہیں ہے۔

واقعے کی پہلے ایف آئی آر کا عکس جو سی ٹی ڈی تھانہ لاہور میں درج کی گئی
واقعے کی پہلے ایف آئی آر کا عکس جو سی ٹی ڈی تھانہ لاہور میں درج کی گئی

اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دوالگ الگ مقدمات کیوں درج کیے گئے ہیں اس سے معاملات اور بھی الجھ جائیں گے ۔ایسانہیں ہوناچاہیے تھایہ واقعہ بھی ماڈل تاﺅن کی طرح سے ہے جس میں خود تحریک انصاف جوڈشیل انکوائری کاکہتی رہی ہے ۔اس کیس میں بھی عدالتی تحقیقات کرائی جانی چاہیں ،قانونی طورپر توورثاءکی جانب سے دائرکردہ ایف آئی آرکوہی قانونی سمجھاجاسکتاہے تاہم دوسری ایف آئی آرکوجب چاہیے تفتیشی ختم کرنے کی عدالت سے درخواست کرسکتاہے۔

جسٹس (ر)فیاض احمدنے ’’امت‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ دوالگ الگ مقدمات کے اندراج سے اصل مقدمہ ناصرف کمزورہوسکتاہے بلکہ اس کافائدہ ملزمان کوہی پہنچے گا۔وقت ضائع کیے بغیر اس کیس کومنطقی انجام تک پہنچایاجاناچاہیے۔

از خود نوٹس پر وکلا کی رائے تقسیم

سانحہ ساہیوال کے بعد سوشل میڈیا پر کئی لوگ چیف جٹس آصف سعید کھوسہ سے از خود نوٹس لینے کیلئے اپیل کررہے ہیں۔ دوسری جانب بعض لوگوں کا یہ بھی کہناہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں نقیب اللہ قتل کیس سمیت کئی معاملات کے از خود نوٹس لیے گئے تھے لیکن عملی طور پر نتیجہ نہیں نکلا۔

از خود نوٹس کے حوالے سے ’امت‘ سے گفتگو کرتے ہوئے اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہاکہ چیف جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ اس پر ازخود نوٹس لیں قانون کے مطابق یہ مفادعامہ کامعاملہ ہے اس میں ازخود نوٹس بنتاہے ۔جان بوجھ کر کسی مقدمے کودوسرے مقدمے کے ذریعے جب الجھائے جانے کااندیشہ ہوتواس سے انصاف کاخون ہوسکتاہے ۔

اسلم گھمن ایڈووکیٹ نے کہاکہ اس واقعے سے تولگتاہے کہ کوئی بھی اس ملک میں محفوظ نہیں ہے پولیس اور دیگرادارے جب چاہیں اور جس کوچاہیں دن دیہاڑے گولیاں ماردین ۔ملک کوپولیس اسٹیٹ نہ بننے دیاجائے یہ بہت نازک معاملہ ہے اس حوالے سے سابق چیف جسٹس بھی پولیس ریفارمزکی باتیں کرتے رہے  ہیں، چیف جسٹس پاکستان آصف سعیدخان کھوسہ کہ چکے ہیں کہ وہ ازخود نوٹس کم سے کم لیں گے لیکن یہ کیس ازخود نوٹس کے معیار پرپورااترتاہے کیونکہ ایک سرکاری ادارے نے معصوم افراد کوگولیاں مارکرہلاک کردیاہے اور اب وہی ادارہ اپنے لوگوں کوبچانے کی کوشش بھی کررہاہے اس لیے بہترہوگاکہ چیف جسٹس اس معاملے پر ازخود نوٹس لیں اس سے بڑھ کر مفادعامہ کاکیس نہیں بن سکتا۔

جلال خان ایڈووکیٹ نے کہاکہ ایسے واقعات کی جوڈیشل انکوائری کی جانی چاہیے چیف جسٹس پاکستان بھی اس پر ازخود نوٹس لیں۔

سلمان ایڈووکیٹ نے کہاکہ ازخود نوٹس زیادہ نہ لینایہ چیف جسٹس پاکستان کافیصلہ خوش آئندہ ہے مگراس طرح کے واقعات پر توکم ازکم ازخود نوٹس بنتاہے اس لیے یہ ازخودنوٹس لیاجاناچاہیے ۔

تاہم پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضیٰ نے ساہیوال واقعے پر چیف جسٹس کی جانب سے ازخودنوٹس لینے کے مطالبے کویکسرمستردکرتے ہوئے کہاہے کہ سسٹم کوریسپانڈکرنے دیاجائے اگر ہر واقعے پر چیف جسٹس پاکستان نے ازخود نوٹس لیناہے توپھر باقی اداروں کاکیافائدہ رہ جاتاہے اس لیے وہ اس واقعے کوبہت ہی براواقعہ کہتے ہیں مگر اس پر ازخود نوٹس لینے سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔

سانحہ ساہیوال کی دوسری ایف آئی آر جس کے مدعی مقتول خلیل کے بھائی جلیل ہیں
سانحہ ساہیوال کی دوسری ایف آئی آر جس کے مدعی مقتول خلیل کے بھائی جلیل ہیں