سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے حکومت پنجاب کی بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی ) نے اپنی ابتدائی رپورٹ تیار کرناشروع کردی ہے۔ 3 اہم گواہوں نے جے آئی ٹی سے رابطہ کرلیا ہے۔ جب کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں مقتول ذیشان کے حوالے سے ایک نئی کہانی سامنے آرہی ہے۔
تاہم تحقیقات میں جائے وقوعہ کا فرانزک معائنہ نہ ہوسکا۔ البتہ واقعے کے ملزم بعض سی ٹی ڈی اہلکاروں کے نام سامنے آگئے۔
جے آئی ٹی نے پیر کے روز جائے وقوعہ کا دورہ کیا۔ اس کے علاوہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کے ڈیوٹی روسٹر، کام کرنے کے ضابطہ کار اور دیگر تفصیلات حاصل کرلی ہیں۔
ایڈیشنل آئی جی اعجازشاہ کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم پیر کو ساہیوال میں اڈا قادر کے مقام پر جائے وقوعہ پر پہنچی اور تفصیلی جائزہ لیا۔ نصف درجن سے زائد پولیس گاڑیوں کے ساتھ ایک بڑی گاڑی میں جے آئی ٹی اہلکار موقع پر پہنچے۔ اس وقت بارش ہو رہی تھی۔ تاہم مقامی لوگ جمع گئے۔
اس دوران جے آئی ٹی ارکان اور ان کی معاونت کے لیے موجود اہلکاروں نے 60 سے زائد افراد سے بات چیت کی۔ جے آئی ٹی نے واقعے کے عینی شاہدین کو پولیس لائن میں آکر بیان ریکارڈ کرانے کی ہدایت کی، جس پر عینی شاہدین نے موقف اپنایا کہ ان سے واقعے کی جگہ ہی بیانات لیے جائیں۔اس پر جے آئی ٹی ارکان مقامی لوگوں سے بیان لیے بغیر ہی جائے وقوعہ سے واپس روانہ ہوگئے۔
تاہم پولیس ذرائع کے مطابق ان میں سے 3عینی شاہدین نے پولیس کی مددسے رابطہ کیا ہے. ان کے نام خفیہ رکھے جارہے ہیں منگل کوان کے بیانات ریکارڈ کیے جانے کاامکان ہے.جے آئی ٹی نے پولیس سے کہاہے کہ ان گواہوں کے نام ابھی سامنے نہ لائے جائیں اور ان کوسیکیورٹی بھی فراہم کی جائے۔
ذرائع کے مطابق ۔تینوں گواہوں نے مختلف فاصلے سے سی ٹی ڈی اہلکارو ں کو فائرنگ کرکے کار سواروں کوہلاک کرتے ہوئے دیکھاہے۔ تاہم پولیس کے خوف سے اس واقعے پر زبان نہیں کھولی تھی مگر اب میڈیاکی جانب سے اس کیس کوموثر اندازمیں اٹھانے پر ان گواہوں نے اپنی گواہی ریکارڈ پر لانے کافیصلہ کیا ہے۔
ذارئع کے مطابق جے آئی ٹی جائے وقوعہ کا فرانزک معائنہ نہ کرسکی۔ پولیس نے واقعہ کے چند گھنٹے بعد ہی مقتولین کی گاڑی جائے وقوعہ سے ہٹا دی تھی۔ گاڑی ہٹائے جانے سے پہلے فرانزک معائنہ بھی نہیں کیا گیا تھا۔ رہی سہی کسر بارش سے پوری ہوگئی۔
فارنزک جانچ نہ ہونے سے یہ معلوم کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ مقتولین کو گولیاں کس کی لگی اور کس اینگل سے لگیں۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ مقتولین دہشت گردوں کی فائرنگ سے مارے گئے۔
ادھر واقعے کے بعد ملزمان کے نام ایک نجی ٹی وی نے نشر کردیئے۔ ٹی وی کے مطابق سانحہ ساہیوال میں اہلکاروں نے آپریشن سی ٹی ڈی کے سب انسپکٹر صفدر حسین کی قیادت میں کیا،دیگر میں احسن خان، محمد رمضان،سیف اللہ اور حسنین اکبر شامل ہیں۔ سانحہ ساہیوال کے 2 مقدمات میں ایک سب انسپکٹر صفدر حسین کی مدعیت میں بھی درج کیا گیا تھا۔
ٹی وی کے مطابق جی آئی ٹی کے سامنے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جس گاڑی میں مقتولین سفر کر رہے تھے وہ ذیشان نے کرائے پر لی تھی جبکہ یہ گاڑی پہلے ہی ایک دہشت گرد خرید چکا تھا جو ایک مقابلے میں مارا گیا۔
نمائندہ امت کے مطابق اعجاز شاہ کی سربراہی میں جے آئی ٹی واقعے پر مختلف پہلوﺅں سے تفتیش کر رہی ہے اور ٹیم نے زیرِ حراست سی ٹی ڈی اہلکاروں سے تفتیش کرنے کےعلاوہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی رائے طاہر سے بھی معلومات حاصل کی ہیں۔ جے آئی ٹی نے نے آئی جی پنجاب کو پیش کی جانے والی سی ٹی ڈی رپورٹ کو بھی تفتیش کا حصہ بنایا ہے۔
ذرائع کے مطابق جو رپورٹ تیار کی جا رہی ہے اس میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔
دو نئے رکن شامل
جے آئی ٹی ٹیم میں 2 نئے ممبر شامل کیے گئے ہیں جن میں ڈی ایس پی انویسٹیگیشن برانچ پنجاب خالد ابو بکر اور ایس ڈی پی او صدر ساہیوال فلک شیر شامل ہیں۔ حساس اداروں آئی ایس آئی اور آئی بی کے نمائندے بھی جے آئی ٹی کے ممبرز ہیں۔
تفتیش کاروں کی جانب سے سی ٹی ڈی کا بھی ریکارڈ چیک کیا جائے گا کہ پولیس گاڑیاں اور اہلکار کس کی اجازت سے آپریشن کے لئے گئے، جاں بحق افراد کے رہائشی علاقوں میں محلے داروں کے بیانات بھی لیے جائیں گے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس واقعہ کے حوالے سے تمام فوٹیج اور دیگر ریکارڈ بھی چیک کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ تیار کرکے وزیراعلی پنجاب کو دی جائے گی جو اسے وزیراعظم عمران خان کو پیش کریں گے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی نے وقوعہ کے روزکاسی ٹی ڈی اہلکاروں کا ڈیوٹی روسٹربھی طلب کیاہے جس کا مقصد وقوعہ کے روزجو بھی اہلکارڈیوٹی پر موجود تھے ان کے نام اور پتے معلوم کرناہے اس کے بعدان ارکان کوطلب کیاجائے گا۔
ذرائع کاکہناہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنے طورپر ابتدائی رپورٹ بھی مرتب کرناشروع کردی ہے جوکہ آئندہ 48گھنٹوں میں اعلیٰ حکام کوپیش کیے جانے کاامکان ہے۔
’حد سے زیادہ گولیاں برسائی گئیں‘
سابق آئی جی طاہر عالم نے ’’امت‘‘ سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے بتایاکہ سانحہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی اہلکاروں نے جوگولیاں چلائی ہیں وہ ضرورت سے زیادہ ہیں۔ اہلکاران اپنی حفاظت کی حدتک فائرنگ کرسکتے تھے مگراس کے لیے بھی یہ جانناضروری ہوتاہے کہ ملزمان سے ان کوکس حدتک خطرہ ہے۔ اس حوالے سے ضابطہ موجود ہے جو صرف اہلکاروں کے لیے نہیں بلکہ ذاتی دفاع کے حوالے سے عام شہریوں کے لیے بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک ساہیوال واقعے کاتعلق ہے اگر پولیس کایہ بیان مان بھی لیاجائے کہ ملزم کی فائرنگ کے جواب میں فائرنگ کی گئی توبھی اتنی گولیاں استعمال نہیں کرنی چاہییں تھیں اس کے لیے زیادہ سے زیادہ تین سے چار گولیاں وہ بھی ایسی جگہ ماری جاتیں کہ جس سے دوسرے لوگوں کی جان بچائی جاسکتی۔
انہوں نے کہاکہ پولیس نے جوکام کرنا تھا کرلیا اب جے آئی ٹی جائزہ لے گی کہ انھوں نے کس حدتک اپنے قواعدوضوابط پر عمل کیا ہے، ظاہرسی بات ہے کہ انہیں اگر معلومات ملی بھی ہوں گی توانھوں نے اس کارروائی کے لیے کسی سے اجازت لی ہوگی۔