وہ کار جو سستی ہونے کی وجہ سے فروخت نہ ہوسکی-پروڈکشن بند

بھارت کی سب سے بڑی اوراہم ترین کاروباری کمپنی ٹاٹا کی جانب سےبنائی جانےوالی دنیا کی سب سے سستی کار مہنگی پڑنے کے باعث تیار اورفروخت کرنی بند کردی گئی۔

جیلی بین کی شکل میں تیار کی گئی دنیا کی سب سے سستی گاڑی کی پروڈکشن بالآخر بند ہوگئی جس پر لاکھوں لوگوں کو انتہائی افسوس ہے جو ایک اچھی شاندار اورسستی سواری سے محروم ہوگئے۔

تاہم اس کار کی فروخت بند کرنے کا بڑا سبب یہ ہے کہ اسے سستی کار کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور بھارت کے ’’اسٹیس‘‘ کی پرواہ کرنے والے معاشرے میں لوگوں نے اسی وجہ سے نانو کو نہیں خریدا کہ یہ سستی اور غریب آدمی کی کار ہے۔

بھارت کی سڑکوں پر دس سال تک راج کرنے والی ٹاٹا نینو کو بند کرنے کا اعلان بھارت کے سب سے بڑے گاڑیاں تیارکرنے والے ادارے ٹاٹا موٹرز نے گذشتہ روز کیا۔

ٹاٹا موٹرز کاکہنا تھا کہ انہوں نے نئے سیفٹی قوانین کی رکاوٹوں کے باعث گاڑی کی تیاری اور فروخت کو بند کردی ہے کیونکہ نئے سیفٹی قوانین کے مطابق ٹاٹانینوکوتیار کرنے کیلئے بہت بڑی اورغیرمعمولی سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔

ٹاٹاموٹرز کے صدر میانک پریک کاکہنا تھا کہ وہ اپنی بہت سی مصنوعات پر مزید سرمایہ کاری نہیں کرسکتے اور ٹاٹانینوبھی ان میں سےایک ہے۔

2009میں مارکیٹ میں پیش کی گئی ٹاٹانینو ایک کمپیکٹ کار تھی جو صرف 2200امریکی ڈالر میں فروخت کیلئے پیش کی گئی تھی ،اس ننھی فیملی کارمیں ڈگی نہیں تھی جبکہ یہ چار اورپانچ دروازوں کے مختلف ایڈیشنز میں دستیاب تھی۔

غریب بھارتیوں کیلئے ٹاٹا نینوجیسی کمپیکٹ اورسستی ترین کارکاآئیڈیا بھارت کے بڑے کاروباری گروپ ٹاٹا کے سربراہ رتن ٹاٹا کے دماغ میں جگمگایا تھاجسے انہوں نے کئی سال کی کوششوں کے بعد عملی جامع پہنادیاتھا۔

81 سالہ ٹاٹا کو گاڑی کی تیاری کے وقت پورا یقین تھا کہ ان کی گاڑی غریبوں اورغریب خاندانوں میں بہت مقبول ہوگی اور جو لوگ موٹرسائیکل سے جان چھڑاناچاہتے ہیںلیکن مہنگی گاڑی نہیں خریدسکتے ان کےخوابوں کی تکمیل یہ گاڑی کرے گی۔

تجزیہ کاروں کایقین تھا کہ نینوکارمارکیٹ میں تہلکہ مچادے گی اور لاکھوں بھارتی اس کے مسافرہونگے اوریہ دنیا کی سب سے سستی کارکاریکارڈ اپنے نام کرلے گی لیکن ایسا نہ ہوسکا اور یہ نینوکار توقعات کے برعکس مطلوبہ تعداد میں فروخت ہی نہ ہوسکی اورنہ وہ مقبولیت حاصل کرسکی جس کاخیال کیا جارہاتھا۔

نینوکارکی ان تمام خامیوں کومارکیٹنگ کی ناکامی قرار دیا گیا کیونکہ اندازہ تھا کہ ٹاٹانینو کے ماہانہ 25ہزار یونٹس سیل ہونگے لیکن یہ سیل چند سو کاروں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔