اسٹیم سیل ٹیکنالوجی کامیاب ، مفلوج نوجوان کے بازوکام کرنے لگے

دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حادثہ کےشکار مفلوج نوجوان کاجسم اسٹیم سیل ٹیکنالوجی کے زریعے کئے گئے علاج سے دوبارہ حرکت کے قابل ہوگیا اور اسے ایک نئی زندگی مل گئی ، اسٹیل سیل ٹیکنالوجی کے علاج سے نوجوان کا اوپری دھڑ غیرمعمولی حد تک کام کرنے لگ گیا ہے ۔

مفلوج نوجوان کرسٹوفربوئسن کی زندگی اس وقت تبدیل ہوکر مکمل طورپر ختم ہوگئی تھی جب اس کی کار سڑک کی پھسلن کے باعث بے قابو ہوکر حادثہ کاشکار ہوکر درخت سے ٹکرا گئی تھی۔
حادثہ اتناشدید اور خطرناک تھا کہ کرسٹوفر بوئسن کاسراورگردن کے علاوہ پورا جسم فالج کی طرح مفلوج ہوگیا تھا اور اس وقت کے ڈاکٹرزنے پیش گوئی کی تھی کہ اب ساری زندگی وہ اسی طرح مفلوج زندگی گزارے گا۔

بعد ازاں کرسٹوفر بوئسن کوتجرباتی مراحل سے گزرنے والی نئی تھراپی یعنی اسٹیم سیل کے ایک نئے تجربے کی پیشکش کی گئی جس میں اعصابی نظام کے مردہ ہونے والے حصے اور اجزاکو اسٹیم سیل کے نئے طریقہ کار کے تحت ٹھیک کئے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اسٹیم سیل تھراپی کے زریعے علاج شروع ہونے سے قبل اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں تھی کہ کرسٹوفر بوئسن مکمل یا جزوی طورپر صحت یاب ہوسکے گا یا نہیں لیکن کرسٹوفر بوئسن نے یہ اس نئے طریقہ کار کے علاج کا رسک لینے کا فیصلہ کیا۔

گذشتہ سال اپریل میں ماہر سرجنز کی ٹیم نے رینکولوز ایمیگوز سینٹر برائے بحالی اورکیک میڈیسن یوایس سی کے تعاون سے کرسٹوفر بوئسن کےریڑھ کی ہڈی میں موجود اعصابی نظام میں ایک کروڑ مخصوص اعصابی خلیوں کو براہ راست کامیابی سے داخل کیا۔

عام حالات میں اس قسم کے مریضوں کے علاج کےدوران ان کی مفلوج ہوجانے والی ریڑھ کی ہڈی کے مہرے توکسی نہ کسی طرح کافی حد تک درست ہوجاتے ہیں لیکن ان کا اعصابی نظام مکمل طورپر فعال اوردرست نہیں ہوپاتا۔

ڈاکٹرزاورماہرین کی ٹیم کاکہنا تھا کہ وہ اس نئے طریقہ علاج کے زریعے یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا اس سے نیورولوجی کے نظام کو درست کیا جاسکتا یا بہتر بنایاجاسکتا ہےجس کامطلب یہ کہ مستقل طورپر ہاتھوں یا جسمانی اعضا کے مفلوج حصوں کو دوبارہ قابل استعمال بنایاجاسکتا ہے یا نہیں۔

اعصابی نظام میں خلیوں کے داخل کئے گئے نئے طریقہ علاج کےتین ہفتہ بعد کرسٹوفر بوئسن کی حالت اچانک تیزی سے بہتر ہونے لگی اورعلاج کے صرف 2ماہ بعد ہی ا س کے اعصابی نظام نے کام شروع کردیااوراس کے اوپرکےدھڑسمیت بازوئوں نے حرکت کرنی شروع کردی جس کے بعد وہ نہ صرف وہیل چیئرچلانے کے قابل ہوگیا ہے بلکہ اپنے موبائل فون پر جواب دینے سمیت اپنانام بھی لکھنے لگا ہے۔

علاج کے 90دن کے بعد کرسٹوفر بوئسن کے اعصابی نظام کی دوسطحی اسپائنل کورڈ میں اس حد تک بہتری آگئی ہے کہ اس کا مکمل مفلوج پن ختم ہوگیاہے اور اس کے پیٹ اورسینے سمیت ہاتھ اس حدتک کام کرنے کے قابل ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں کو نہ صرف ہلاجلاسکتا ہے بلکہ ان سے درمیانے درجہ کے کام بھی کرسکتاہےجیسا کہ دانت برش کرنا، کمپیوٹر پر کام کرنااوردیگر چھوٹے موٹے کام جو عام طورپر آپ مفلوج حالت میں نہیں کرپاتے۔

اسٹیم سیل تھراپی سے شفایاب ہونے دنیا کے پہلے مریض کے مثبت نتائج نے سب کو حیران کردیا ہے، کرسٹوفر کاکہناہے کہ میں دوبارہ سے اپنی پرانی لڑنے اورعام زندگی گزارنے والی پوزیشن چاہتا ہوں لیکن اپنے کو بہتر کرنے کایہ موقع ملنے میری خواہش ہے کہ میں دوبارہ سے کم سے کم چل پھر سکوںاوراپنے روزمرہ کے کام خود کرسکوں تاکہ دوسروں کی محتاجی نہ رہے ۔

کرسٹوفر کے والدین اسٹم سیل تھراپی کے بعد بیٹے کی تیزی سے بہتر ہوتی صحت پر بہت خوش ہیں اور ان کاکہناہے کہ وہ اپنے بیٹے کے علاج کیلئے ماہرین اوراداروں کے تعاون اور مدد پر بہت حیران بھی ہیںاوران کے شکرگزار بھی ہیںجن کی محنت اور جدوجہد کی وجہ سے آج ان کابیٹا دوبارہ زندگی کی راہ پرگامزن ہوگیا ہے۔