طالبان نے مغربی وردیاں کیوں پہن لیں

https://www.facebook.com/ummat.com.pk/videos/1017011165157062/

افغان دارالحکومت کابل کے قریب کچھ عرصے سے فوجی وردیوں میں گشت کرتے افراد دیکھے جا رہے ہیں لیکن یہ افغان فوج یا پولیس کے اہلکار نہیں۔

بلکہ یہ افغان طالبان کی خصوصی یونٹس کے اہلکار ہیں۔ جو مغربی طرز کی فوجی وردیوں، بیجز اور حتیٰ کہ مغربی اسلحے کے ساتھ گاڑیوں پر گشت میں مصروف ہوتے ہیں۔

اسی طرح قندھار کے قریب حملے کی تیاری کرنے والے وردی پوش افراد کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی جو حقیقت میں طالبان کا دستہ تھا اگرچہ اس کی وردی افغان فوج کے اسپیشل آپریشز فورسز کے اہلکاروں کی وردی سے ملتی جلتی تھی۔

افغان فورسز سے ان دستوں کی واحد علیحدہ شناخت طالبان کا وہ سفید پرچم ہے جس پر کلمہ طیبہ لکھا ہوتا ہے۔

افغان طالبان کے پاس اب عام گاڑیوں کے علاوہ امریکی بکتر بند ہمویز کی بھی بڑی تعداد ہے۔

مغربی اسلحے سے لیس اور مغربی طرز کی وردیاں پہنے طالبان دستوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

طالبان نے پہلا مغربی طرز کا دستہ 2016 میں صوبہ ہلمند بنایا تھا جسے ’ریڈ گروپ‘ کا نام دیا گیا۔

ہلمند کے ضلع سنگین میں تعینات اس دستے کو ’ڈینجر گروپ‘ بھی کہا گیا۔ جب کہ افغان اسپیشل آپریشز فورسز(ایس او ایف) کی طرز پر ان اہلکاروں کو طالبان اسپیشل آپریشنز فورسز کہا گیا۔

ریڈ گروپ نے صوبے میں لڑائی کا پانسہ طالبان کے حق میں پلٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔

بی بی سی کے ایک رپورٹر نے جون 2017 میں ہلمند کا دورہ کیا۔ اس وقت ریڈ گروپ کے بیشتر ارکان وردیوں میں نہیں تھے البتہ ان کے پاس امریکی ایم فور  رائفلیں موجود تھیں۔

تاہم اب تمام ریڈ یونٹ اہلکار باقاعدہ یونیفارمز، ایم فور رائفلوں اور کاربائن رائفلوں سے لیس ہیں۔

ماضی کے برعکس طالبان اب کھلے عام تربیتی مشقیں کرتے ہیں۔

ستمبر 2017 سے طالبان ان خصوصی دستوں کی ویڈیوز جاری کر رہے ہیں۔ اسی وقت پہلی بار ان خصوصی دستوں کو شہرت ملی۔ تاہم اس وقت ان کی تعداد کم تھی۔

لیکن اب ان دستوں کی تعداد بڑھ چکی ہے۔ اور کئی قوتیں ان سے خائف ہیں۔ مغربی میڈیا کا کہنا ہے کہ طالبان ان یونٹس کی ویڈیوز طاقت دکھانے اور یہ ثابت کرنے کیلئے جاری کر رہے ہیں کہ وہ کابل فتح کر لیں گے۔ امریکی جریدے ملٹری ٹائمز کا کہنا ہے کہ یہ طالبان کا پروپیگنڈہ ہتھیار ہے۔

تاہم مغربی جرائد ایم فور رائفلوں اور نائٹ وژن گاگلز سے لیس خصوصی طالبان دستوں کی بہتر تربیت کے بھی معترف ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی گذشتہ برس ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ امریکی فوج کے بغیرافغان فوج 6 ماہ بھی نہیں گزار سکے گی۔

خدانخواستہ افغانستان کے مسئلے کا حل مذاکرات کی میز پر نہ نکل سکا تو طالبان کے خصوصی دستے فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔