سعودی عرب سے دو بہنیں اپنے والدین اور ملک کو چھوڑ کر فرار ہوگئی ہیں اور انہوں نے اسلام ترک کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آسٹریلیا جانے کی خواہشمند دونوں بہنوں کو سعودی حکام نے ہانگ کانگ میں روک لیا لیکن اب وہ آگے جانے کے لیے عالمی مدد مانگ رہی ہیں۔
بالکل اسی طرح کا واقع جنوری میں پیش آیا تھا جب رہف القنون نامی ایک سعودی لڑکی آسٹریلیا جاتے ہوئے بنکاک میں روکی گئی تھی اور پھر بین الاقوامی اداروں نے اسے کینیڈا پہنچا دیا تھا۔ رہف القنون نے بھی مرتد ہونے کا اعلان کیا تھا۔
وطن، والدین اور مذہب سے بھاگتی نوجوان سعودی لڑکیاں- گمراہ کس نے کیا!
سعودی عرب سے بھاگنے والی لڑکی کا ’جھوٹ‘ بے نقاب کرنے کی مہم
ہانگ کانگ سے جمعرات کو عالمی مدد مانگنے والی دو بہنوں کی عمریں 18 اور 20 برس ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ چھٹیاں منانے سری لنکا گئی تھیں اور وہاں سے بھاگ گئیں۔ یاد رہے کہ رہف بھی اپنے والدین کے ساتھ چھٹیوں پر کویت میں تھی جہاں سے وہ تنہا بنکاک پہنچ گئی تھی۔
تاہم امریکی ٹی وی سی این این اور عرب ٹی وی الجزیرہ کے مطابق یہ دونوں بہنیں رہف القنون سے پہلے اپنے گھر اور اہلخانہ سے فرار ہوئیں۔ یہ ستمبر میں سری لنکا سے نکل کر ہانگ کانگ پہنچی تھیں اور جب سعودی حکام نے انہیں آسٹریلیا جانے سے روکا تو یہ ہانگ کانگ میں ہی روپوش ہوگئیں اور چھ ماہ سے روپوشی کی زندگی گزار رہی ہیں۔
دونوں لڑکیوں نے ریم اور روان کے فرضٰی نام بتائے اور اپنی اصل شناخت ظاہر نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اسلام ترک کرچکی ہیں اور سعودی عرب واپسی پر انہیں قتل کردیا جائے گا لہٰذا انہیں کئی ’ایسے ملک میں پناہ دی جائے جو خواتین کے حقوق کو تسلیم کرتا ہو‘۔
لڑکیوں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے مرضی سے زندگی گزارنے کی اجازت نہیں تھی اور انہیں ’اچھی مسلمان لڑکی‘ بننے کیلئے کہا جاتا تھا۔
لیکن سی این این کی خبر سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں لڑکیوں کو ان کا خاندان ملک سے باہر چھٹیوں پر لے کر جاتا تھا۔ سی این این نے ان میں سے ایک بہن کی تصویر شیئر کی جو ترکی کے استنبول ایئرپورٹ پر ریسٹ روم میں لی گئی۔ تصویر میں لڑکی مکمل نقاب میں ہے۔
سی این این نے ان لڑکیوں کا ایک انتہائی مختصر ویڈیو کلپ بھی شیئر کیا جو غالبا سری لنکا کے ساحل پر بنایا گیا۔
سعودی بہنوں نے اپنی اپیل ہانگ کانگ کے معروف وکیل مائیکل وڈلر کے ذریعے جاری کی ہے۔ وڈلر ہم جنس پرستوں کے مقدمات لڑنے کی وجہ سے مشہور ہیں۔
وکیل کا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ ایئرپورٹ پر آسٹریلیا کے لیے پرواز بدلنے کے دوران دو افراد نے دونوں بہنوں کے پاسپورٹ لے لیے تھے۔ ریم اور روان نے ایک ٹوئٹر اکائونٹ بھی بنایا ہے جس میں انہوں نے کہاکہ ایئرپورٹ سے انہیں اغوا کرنے کی کوشش کی گئی اور ان کے پاسپورٹ منسوخ کردیئے گئے ہیں تاکہ انہیں سعودی قونصل خانے جانے پر مجبور کیا جا سکے۔
ٹوئیٹر ہینڈل @hksisters6 سے جمعرات کو ہی ٹوئیٹس کی گئی ہیں جن میں دونوں بہنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اصل ناموں سے سفر نہیں کر سکتیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم صحافی جمال خاشقجی جیسا انجام نہیں چاہتیں جنہیں استبنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کردیا گیا تھا۔
الجزیرہ کے مطابق کانگ کانگ کی پولیس نے تصدیق کی ہے کہ انہیں گمشدگی کی رپورٹ موصول ہوئی ہے۔ ہانگ کانگ میں سعودی قونصل خانے نے اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ ہانگ کانگ ایئرپورٹ کے حکام نے بھی تبصرے سے انکار کردیا۔
یہ معاملہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان چین کے دورے پر پہنچے ہیں۔
فرار کیسے ہوئیں؟
ریم اور روان 6 ستمبر 2018 کو سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو سے فرار ہوئیں جہاں ان کا خاندان چھٹیوں کے لیے مقیم تھا۔ ایک بہن نے ٹیکسی پہلے سے بک کرا رکھی تھی دوسری نے رات 2 بجے والدین کے بیگ سے اپنے پاسپورٹس نکالے۔ صبح پانچ بجے ٹیکسی انہیں لینے پہنچ گئی۔ پہلی دفعہ وہ جینز کی پتلونیں پہن کر بغیر عبایہ گھر سے نکلیں۔
سی این این نے یہ بھی لکھا کہ چھوٹی بہن روان کی 18 ویں سالگرہ پر یہ خاندان سری لنکا گیا تھا اور وہاں جانے کیلئے بھی ان بہنوں نے ہی اپنے والدین کو قائل کیا تھا۔
امریکی ٹی وی کا کہنا ہے کہ دونوں بہنیں ساتھ نارروا سلوک کی زیادہ تفصیل نہیں بتاتیں تاہم ان کے بقول ان کے بھائیوں کو کھیلنے کودنے، سمندر میں نہانے کی اجازت تھی جبکہ انہیں نقاب میں رہنا پڑتا۔ یہی معاملہ ان کی 12 سالہ چھوٹی بہن کے ساتھ تھا۔ ایک مرتبہ ان کے بھائی نے محض ہنسنے پر انہیں مارا تھا۔
دونوں بہنوں کو کولمبو سے ہانگ کانگ کی پرواز لینے میں مشکل پیش نہیں آئی لیکن انہیں معلوم تھا کہ ہانگ کانگ میں انہیں روکا جا سکتا ہے۔
سی این این کے مطابق ہانگ کانگ میں دونوں بہنوں کو پہلے سعودی سفارتکاروں نے نہیں بلکہ سری لنکن ایئرلائن سے وابستہ دو افراد نے روکا اور ان کے ملیبورن کے ٹکٹ منسوخ کرانے کے بعد انہیں سعودی دارالحکومت ریاض کی فلائٹ پر بک کردیا۔
تاہم ریم اور روان صورت حال کو بھانپتے ہوئے باتھ روم جانے کے بہانے وہاں سے نکل گئیں۔ انہوں نے قنطاس ایئر کا ٹکٹ لے لیا جو بقول ان کے سری لنکن ایئر کے نعمان شاہ نے چھیننے کی کوشش کی۔ کچھ بعد سعودی سفارتکاروں نے قنطاس ایئرلائن سے رابطہ کرکے انہیں آسٹریلیا جانے سے روک دیا۔
ہانگ کانگ میں تلاش
دونوں بہنیں ایئرپورٹ سے تو نکل گئیں لیکن جیسے ہی انہوں نے ایک ہوٹل میں قیام کیا مقامی پولیس نے پاسپورٹ اور ہوٹلز کے چیک ان کے نظام میں قائم ربط کے ذریعے انہیں ڈھونڈ نکالا۔ انہیں پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ ان کے والد اور چچا وہاں پہنچ چکے تھے۔ لیکن لڑکیوں نے ان سے ملنے سے انکار کردیا۔ پولیس نے انہیں واپس ہوٹل پہنچا دیا۔
اب ایک بار پھر وہ ہوٹل سے نصف شب کو فرار ہوگئیں۔ اس کے بعد سے وہ ہانگ کانگ میں روپوش ہیں۔
سی این این کے مطابق ان سعودی بہنوں نے ہانگ کانگ میں پناہ کی درخواست اس لیے نہیں دی کہ انہیں طویل وقت تک انتظار کرنا پڑتا۔ وہ کسی دوسرے ملک میں پناہ چاہتی ہیں۔
بیرونی مدد
فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان سعودی بہنوں کو فرار میں سعودی عرب سے باہر کسی نے مدد دی یا نہیں تاہم اس سے پہلے بعض واقعات میں فرار ہونے والی لڑکیوں کے پہلے سے فرار سعودی خواتین سے رابطوں کا انکشاف ہوا تھا۔
سعودی خواتین کو مرتد ہو کر ملک سے فرار ہونے میں مدد کیلئے رعنا مسعود نامی ایک خاتون نے جرمنی میں Atheist Refugee Relief agency قائم کر رکھی ہے۔
اس سے پہلے سعودی عرب کی رہف القنون کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی معاونت سے کینیڈا پہنچایا گیا تھا جہاں اس کی مدد کیلئے چندہ مہم بھی شروع کی گئی۔