فروری کے آخری نصف مہینے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان فضائی، بری اور بحری افواج کی سطح پر لڑائی ہوئی ہے تاہم دونوں ممالک میں ایک چوتھے محاذ پر بھی شدید جنگ ہوئی اور اس میں بھی پاکستان فاتح رہا ہے۔ یہ فتح ایسی ہے جس کا دشمن بھی اعتراف کر رہا ہے۔
جب بھارتی فضائیہ نے 26 فروری کو پاکستانی حدود میں گھس کر بالاکوٹ کے قریب بم پھینکے تو یہ پاکستان کے ساتھ فضائی لڑائی کا آغاز تھا۔ اگلے روز ہی پاکستان نے بھارتی قرض سود سمیت چکا دیا۔ نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں 6 بھارتی پوزیشنوں پر بمباری کی بلکہ اس کے ردعمل میں پاکستان میں گھسنے والے دو بھارتی طیارے بھی مار گرائے جن میں سے ایک مگ 21 تھا اور اس کا پائلٹ پاکستان میں گرفتار ہوا۔ دوسرا طیارہ سخوئی 30 تھا جس کے دو پائلٹ پاکستان میں گرتے گرے بچ گئے اور مقبوضہ کشمیر میں اترے۔ ان میں سے ایک کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔
اس کے ساتھ ہی بھارت کی بری فوج نے بھی اپنی جارحیت شروع کی۔ فضائی حملے سے دو روز قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں 10ہزار بی ایس ایف اہلکار پہنچائے گئے۔ راجستھان میں حملے کیلئے فوج جمع کی گئی۔ کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر شدید گولہ باری ہوئی۔ پاکستان کی طرف شہریوں کا جانی نقصان ہوا۔ دو فوجی بھی شہید ہوئے تاہم بھارت کی طرف نقصان اس سے کہیں زیادہ تھا۔ پاکستانی گولہ باری کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تین شہری بھی جاں بحق ہوئے۔ حالانکہ کنٹرول لائن کے پار بھی کشمیری مسلمانوں کے مقیم ہونے کی وجہ سے پاکستانی افواج انتہائی احتیاط سے کام لیتی ہے۔ اور اس کا اعتراف حالیہ دنوں ایک بزرگ نے بھارتی ٹی وی پر بھی کیا جس کی ویڈیو وائرل ہوئی۔
تاہم اس مرتبہ گولہ باری انتہائی شدید تھی۔ بھارتی فوج کو شدید جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔
تیسرا محاذ سمندر میں تھا۔ 27 اور 28 فروری کو بھارتی بحریہ نے کراچی پر حملے کا منصوبہ بنا رکھا تھا جس سے نمٹنے کیلئے پاک بحریہ تیار رہی۔ 4 مارچ کو بھارتی آبدوز نے پاکستان میں گھسنے کی کوشش کی تو اسے بروقت ڈھونڈ کر وارننگ دی گئی۔ پاکستان کی وارننگ پر بھارتی آبدوز کو ضابطے کے مطابق سطح سمندر پر آنا پڑا جہاں اس کی ویڈیو بھی بنائی گئی۔
بھارتی آبدوز کی پاکستانی حدود میں گھسنے کی کوشش ناکام بنادی گئی
تاہم یہ تینوں محاذ افواج کے درمیان تھے۔ کسی بھی ملک کی فوج اس کی ’’قومی طاقت‘‘ کا حصہ ہوتی ہے۔ قومی طاقت یا national powerکے دیگر دو عناصر مضبوط معیشت اور اچھی سفارتکاری ہیں۔
لیکن اسکالرز ایک چوتھے عنصر کو بھی بہت اہم تسلیم کرتے ہیں اور یہ عنصر پروپیگنڈہ ہے۔ دنیا بھر میں نازی جرمنی کو برا سمجھا جاتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اس کے باوجود نازی جرمنی کی ایک وراثت کو سبھی گلے لگائے بیٹھے ہیں اور وہ ہے پروپیگنڈہ کا فن۔
اگرچہ جب بھی نازی پروپیگنڈے کا ذکر آئے لوگوں کے ذہن میں ہٹلر کے وزیر جوزیف گوئبلز کا نام آتا ہے تاہم گوئبلز اپنے فن تقریر کی وجہ سے جرمن پروپیگنڈے کا چہرہ تھے۔ پروپیگنڈے کے فن پر سیر حاصل بحث ایک کم معروف شخص یوجین ہاڈامووسکی (Eugen Hadamovsky) نے کی جنہوں نے اس پر کم ازکم 7 کتابیں لکھیں۔ یہ کتابیں بعدازاں امریکی جامعات میں بھی پڑھائی گئیں اور اب بھی پڑھائی جاتی ہیں۔
احمق، بزدل اور دہشت گرد رہنما اور مقصد کی اہمیت
ہاڈامووسکی سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ ریڈیو ڈائریکٹر بھی تھے اور ان کی کتابیں دراصل جرمن دانشور رہنمائوں کے لیے لکھی گئی تھیں۔ ان کے کئی حصے انتہائی دلچسپ اور ہلکے پھلکے ہیں۔ مثلا ایک جگہ وہ لکھتے ہیں، محبت اور شادی کے معاملے میں عورتیں سب سے اچھی پروپیگنڈہ کرنے والی ہوتی ہیں۔
ہاڈامووسکی اپنی کتاب ’پروپیگنڈہ اور قومی طاقت‘ میں لکھتے ہیں کہ ہر سیاسی قائد کو اس کے دشمن کے پروپیگنڈے میں ’’مکمل احمق، بزدل اور محض دہشت گرد‘‘ ایسا شخص بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس کی عقل اتنی کند ہے کہ اسے خفیہ طور پر کہیں اور سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سربراہان حکومت کے حوالے سے اسی طرح کا پروپیگنڈہ کرنے کی کوشش کی۔ تاہم بھارتی وزیراعظم کے حوالے سے پاکستان کا یہ مؤقف حاوی ہوگیا کہ نریندر مودی صرف الیکشن جیتنے کے لیے پاکستان اور بھارت کو جنگ میں جھونکنا چاہتے ہیں، انہوں نے پاکستان پر حملے سے پہلے نتائج کا نہیں سوچا اور وہ اپنے فائدے کے لیے انسانی جانوں کو داؤ پر لگا سکتے ہیں۔ ان کے پیچھے بھارت کے ہندو انتہا پسند ہیں۔
بھارت نے بھی پاکستانی وزیراعظم کے بارے میں اسی طرح کا پروپیگنڈہ کرنا کی کوشش کی تاہم بھارتی پروپیگنڈہ مؤثر ثابت نہ ہوسکا اور اس کی وجہ سے بھی ہاڈامووسکی کی اسی کتاب میں تلاش کی جاسکتی ہے۔
جرمن پروپیگنڈا ماہر نے لکھا کہ اپنے ’’مقصد‘‘ میں اعتماد اور پورا یقین کامیاب پروپیگنڈے کے لیے ایک لازمی ضرورت ہے۔
پورے زوروشور سے اپنی بات کہنا ہاڈامووسکی کی نظر میں اتنا ضروری ہے کہ وہ کسی دانشور کو پروپیگنڈے کے کام پر لگانا غلطی تصور کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دانشور کہے گا کہ ہٹ دھرمی مناسب نہیں دوسرے کی بات بھی سننی چاہئے۔ایک ہی بات بار بار دہرانا بوریت والا کام ہے۔
سادہ لفظوں میں اپنے مقصد سے متعلق ابہام کا شکار افراد پروپیگنڈہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے، وہی کامیاب ہوسکتا ہے جو اپنی بات پر ڈٹا رہے۔ یہاں ہاڈامووسکی گوئبلز کا حوالہ دیتے ہیں کہ سچائی ایک ہی ہوسکتی ہے، یا تو دوسرے سچ بول رہے ہیں ہم جھوٹ بول رہے ہیں یا پھر ہم سچ کہہ رہے ہیں اور باقی تمام جھوٹے ہیں۔
بہت سے پاکستانیوں کو یہ بات یاد ہوگی کہ اندرون ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کئی حلقے مسلح عسکریت پسندوں کے معاملے پر تذبذب کا شکار رہے۔ بالآخر جب پوری قوم اس معاملے پر یکجا ہوئی تو کچھ برسوں میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوگیا۔
حالیہ کشیدگی کے دوران مودی سرکار کے سرحد پار حملے پر بھارت میں ابہام پیدا ہوئے جو اب تک برقرار ہیں۔
جب تک بھارتیوں کو امید رہی کہ پاکستان جوابی حملہ نہیں کرے گا تب تک اپوزیشن بھی مودی کے پیچھے کھڑی تھی۔ لیکن بھارت کا یہ قومی اتحاد ایک ہی دن بعد اس وقت پارہ پارہ ہوگیا جب 27 فروری کو پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں جوابی حملہ کیا اور پھر بھارتی طیارے بھی مار گرائے۔
اگلے روز 28 فروری سے مودی کے مقاصد پر سوالات اٹھنے شروع ہوئے اور بھارت کا مورال گرنا شروع ہوگیا۔ گذشتہ چند روز سے نریندر مودی اپوزیشن رہنمائوں کو پاکستان کے نمائندے قرار دے رہے ہیں۔ جب کہ اپوزیشن جماعتیں بالاکوٹ میں جانی نقصان کے کھوکھلے دعوئوں پر مودی کو جھوٹا کہہ رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والا عوام کا غصہ اپنی جگہ موجود ہے۔
اپ ڈیٹ: سیٹلائیٹ تصاویر سے بالاکوٹ حملے کی حقیقت سامنے آگئی
بالی ووڈ طرز پر بھارت کی پروپیگنڈہ کہانی
کانگریسی رہنما نے پلوامہ واقعے کو ’’حادثہ‘‘ قرار دے دیا
بھارتی حملے سے پہلے پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بہت بڑی تفریق تھی لیکن بھارت نے حملہ کرکے پورے پاکستان کو ’’وطن کے دفاع‘‘ کے مقصد پر متحد کر دیا۔ ایک مقصد پر متحد ہونا ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان سب سے بڑا فرق تھا اور اس سے پاکستان کا پلڑا بھاری ہوا۔
بھارت کا اصل مقصد کیا تھا؟
بھارتی حکومت نے دنیا کے سامنے یہی دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان میں حملہ دہشت گرد کیمپ پر کیا جہاں سے بھارت میں حملے کا خطرہ تھا تاہم اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ بھارتی اسٹیبشلمنٹ کی اصل سوچ کیا تھی۔
پاکستان اور بھارت کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد خطے میں ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ روایتی جنگی ہتھیاروں میں برتری رکھنے کے باوجود بھارت نے جب بھی جنگ چھیڑی پاکستان اس کا جواب ایٹمی ہتھیاروں سے دے گا لہٰذا بھارت کے پاس جنگ کا آپشن موجود نہیں ہے۔ بھارتی دفاعی ماہرین کا کہنا تھا کہ اسی وجہ سے پاکستان بھارت کے خلاف مجاہدین کو متحرک رکھے ہوئے ہے کیونکہ اسے جوابی کارروائی کا خوف نہیں رہا۔ بھارتی حکام اور ماہرین اسے پاکستان کی ’’بلیک میلنگ‘‘ قرار دیتے رہے ہیں۔
مودی حکومت کے دوران بھارت میں ایک نئی سوچ یہ سامنے آئی کہ پاکستان کی اس ایٹمی بلیک میلنگ یا نیوکلیئر بلف سے نکل کر سرحد پار فوجی کارروائی کی جائے اور ایک نئی روایت (new normal) کا آغاز کیا جائے۔ یعنی اگر مکمل جنگ کیے بغیر پاکستان سے بھارت میں کارروائیاں ہوتی ہیں تو بھارت سے بھی پاکستان میں محدود فوجی حملے ہوتے رہیں گے۔ اس طرح پاکستان بالآخر بھارت میں کارروائیوں سے باز آجائے گا۔
بھارت نے 2016 میں پاکستان میں سرجیکل حملے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم عملی طور پر اس دعوے کی کوئی اہمیت نہیں تھی کیونکہ کنٹرول لائن پر دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے کی حدود میں گھس کر محدود کارروائیاں کرتی رہتی ہیں۔ برسوں سے بھارت الزام لگاتا آرہا ہے کہ پاکستان کی بارڈر ایکشن ٹیمیں(bat) کنٹرول لائن کے پار بھارتی حدود میں جا کر اس کے فوجیوں کو قتل کردیتی ہیں۔ پاکستان ان الزامات سے انکار کرتا ہے۔
لہٰذا 2016 کے سرجیکل حملے کا دعویٰ کوئی معنے ہی نہیں رکھتا تھا۔ اس مرتبہ بھارت نے کھلی جارحیت کی جس پر جواب میں اسے کہیں زیادہ مار پڑی۔
بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نئی روایت یا new normal کا تصور مٹی میں مل چکا ہے۔ نئی روایت شروع کرنے کی کوشش میں مودی حکومت پاکستان اور بھارت کی پرانی روایت سے بھی محروم ہوگئی۔ اس پرانی روایت کے دوران بھارت پاکستان کے خلاف گاہے بگاہے سفارتی واویلا مچاتا تھا اور دنیا اسے امن پسند سمجھ کر اس کی حمایت کرتی تھی۔ اس مرتبہ بھارت جنگ پسند ہونے کا داغ ماتھے پر سجائے بیٹھا ہے۔