سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا ہے کہ ریکوڈک میں ایک ہزار ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں، جرمانہ ہوا ہے معاملے کی 1993 سے تحقیقات ہونی چاہئیں، اس معاہدے میں بہت بڑی کرپشن کی گئی ہے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ ریکوڈک کیس کا فیصلہ 2 ججز کے ساتھ بیٹھ کرکیا تھا، ہم جو بھی کام کرتے ہیں آئین و قانون کے مطابق کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت سابق جج کسی کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوسکتا، آرٹیکل 207 کے تحت سابق جج کو کسی کمیشن میں نہیں بلایا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ ریکوڈک میں ایک ہزار ارب ڈالر مالیت کے ذخائر ہیں اور جو کرپشن کی گئی وہ بہت بڑی ہے، ریکوڈک کے معاملے کی 1993 سے تحقیقات ہونی چاہئیں۔
سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ریکوڈک کیس میں آخر کار پاکستان کو جرمانہ ہوگیا اور اس کی تحقیقات کیلئے کمیشن بن گیا ہے جو اچھی بات ہے لیکن ججز کے فیصلوں کو چیلنج کرنے سے انکارکی پھیلے گی۔
پاکستان اسٹیل کی نجکاری روکنے کے فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس نے کہا کہ 21 ارب روپے میں اسٹیل مل کی فروخت گھاٹے کا سودا ہوتا، خریداروں کا بھارتیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ تھا یہ ایک قومی اثاثہ ہے اور اس کی نجکاری کے خلاف تھا۔
عالمی عدالت انصاف سے کلبھوشن یادیو کیس کا فیصلہ آنے پر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ کلبھوشن پاکستان میں دہشتگردی اور جاسوسی میں ملوث رہا ہے اسے فوجی عدالت سے جو سزا ملی ہے وہ برقرار ہے۔
انہوں نے کہا کہ تصدق جیلانی نے بطور ایڈہاک جج اختلافی نوٹ لکھا جو قابل ستائش ہے۔ کلبھوشن کے کیس میں نظر ثانی کا فیصلہ پاکستانی عدالت کرے گی اور پاکستان کی عدالت کے فیصلے کو دنیا کو ماننا پڑے گا۔