میں نے ایک عام شہری کے طور پر پولیس اورایف آئی اے کو درخواست دی۔فائل فوٹو
میں نے ایک عام شہری کے طور پر پولیس اورایف آئی اے کو درخواست دی۔فائل فوٹو

شہزاد اکبر نے جسٹس فائزعیسیٰ کی جاسوسی کروائی۔وکیل منیر ملک

سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں جسٹس فائزعیسی کے وکیل منیر ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین اے آر یو شہزاد اکبر نے جسٹس فائزعیسیٰ کی جاسوسی کروائی، جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ لگتا ہے ایف آئی اے نے تحقیق کے بغیر رائے بنالی جب کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کیا گھر والوں کو ایف بی آر نے نوٹس بھیجے۔

نجی ٹی وی کے مطابق عدالت عظمیٰ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وغیرہ کی جانب سے صدارتی ریفرنس کیخلاف دائر د رخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں تمام فریقین ایک بات یاد رکھیں کہ سپریم کورٹ ایک آئینی ادارہ ہے، جسے ہر حال میں چلتے رہنا چاہیے اور چھوٹے مقاصد کے لیے اسے رکنا نہیں چاہیے، یہ معاملہ نہایت توجہ اور خلوص سے چلانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کسی سائل کا نہیں بلکہ ہمارے ہی ایک ساتھی جج کا معاملہ ہے، عدالت کو سمجھنے دیں کہ آخران کے خلاف یہ ریفرنس کیوں بھیجا گیا ہے؟ جب کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ”فیض آباد دھرنا کیس“ کے فیصلے کے بعد نظر ثانی کی درخواستوں میں حکومتی اتحادیوں نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ پراعتراضات کرتے ہوئے انہیں اس عہدہ کے لئے نااہل قرار دینے کی استدعا کی تھی جس کے بعد ان کی،ان کی اہلیہ اور بچو ں سے متعلق معلومات لینے کے لئے ان کی جاسوسی کی گئی۔

صدارتی ریفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر کسی بھی قسم کی بدعنوانی یا بددیانتی کا الزام نہیں لگایا گیا ہے، حتیٰ کہ یہ بھی نہیں کہا گیا ہے کہ یہ جائیداد یں براہ راست یا بے نامی طور پران کی ہیں۔

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائی کورٹ کے 2 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔

حکومتی ذرائع کے مطابق ان ججز میں لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ایک، ایک جج بھی شامل تھے۔لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج فرخ عرفان چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے دوران استعفیٰ دے چکے ہیں اس لیے ان کا نام ریفرنس سے نکال دیا گیا ہے۔

پہلے ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور کے کے آغا پر بیرون ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا۔ صدارتی ریفرنسز پر سماعت کیلیے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون کو طلب کیا گیا تھا، اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت اختتام پذیر ہوچکی ہے۔

ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جواب کا جواب الجواب کونسل کے اجلاس میں جمع کرا دیا ہے، کونسل اٹارنی جنرل کے جواب کا جائزہ لینے کے بعد حکم جاری کرے گی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس کو گزشتہ دنوں کونسل نے خارج کردیا ہے۔