چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سابق فوجی آمر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف چھ سال سے لٹکے غداری کیس کافیصلہ کروانے میں مرکزی کرداراداکیا۔وہ نہ ہوتے تو شایدابھی تک مشرف کو سزانہ سنائی جاسکتی۔
واضع رہے 20نومبر2019 کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ججوں پراعتراض کرنے والے تھوڑی احتیاط کریں، طاقت ورکا طعنہ ہمیں نہ دیں،جس کیس پر وزیراعظم نے بات کی ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ اجازت انہوں نے خود دی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ایک وزیراعظم کو سزادی ایک کو نااہل کیا،ایک سابق آرمی چیف کے مقدمے کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ جس کیس پر وزیراعظم نے بات کی ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ اجازت انہوں نے خوددی،ہمارے سامنے صرف قانون طاقتور ہے کوئی انسان نہیں،عدلیہ میں خاموش انقلاب آگیاہے،ججز اپنے کام کو عبادت سمجھ کرکرتے ہیں،ججزپراعتراض کرنے والے تھوڑی احتیاط کریں۔
سینئر وکلا کاخیال ہے کہ مشرف کیخلاف کیس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کا اہم ترین کردار پاکستانی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔
مشرف کیخلاف نومبر دوہزار تین میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے کیس دائر کیا تاہم متعدد وجوہات کی بنا پر کیس کی کارروائی رکی رہی۔ یہ تاثربھی پایا جاتا ہے کہ جسٹس کھوسہ غداری کیس میں گزشتہ تین ہفتوں سے ہائی کورٹس کی ناجائز مداخلت پر بھی ناخوش تھے۔
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت نے اکیس نومبر 2014کووفاقی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس کیس میں زاہد ، سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو بھی غداری کیس میں نامزد کیاجائے۔
عدالت کے اس فیصلے پرکارروائی تقریبا دوسال تک رکی رہی۔فروری 2016میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت کامذکورہ حکمنامہ منسوخ کیااور مشرف کیخلاف ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیا۔
اسی دوران سابق آرمی چیف علاج کی غرض سے بیرون ملک چلے گئے۔اوریہاں خصوصی عدالت کے کئی جج صاحبان یا تو ریٹائرڈہوگئے یاپھر عدالت سے الگ ہوگئے۔ جیسے ہی آصف کھوسہ چیف جسٹس بنے انہوں نے ٹرائل میں تاخیر کے معاملے کودیکھا۔
25مارچ کو چیف جسٹس نے انگلش فوجی آمر اولیورکی سزا کا حوالہ بھی دیا تھاجس کے ڈھانچے کو اس کے مرنے کے بعد پھانسی پر لٹکایاگیاتھا۔اولیور عدالتوں کو بے بس سمجھتے ہوئے ان میں پیش نہیں ہواتھا۔
اپریل میں چیف جسٹس ہی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے قانونی فیصلہ دیا تھا کہ اگرمشرف و اپس نہ آئے تو وہ صفائی پیش کرنے کا حق کھودیں گے۔چیف جسٹس کے اس فیصلے کے بعد کیس کی خصوصی عدالت میں سماعت شروع ہوگئی۔
جسٹس طاہرہ صفدر کی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس نے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کو خصوصی عدالت کی سربراہی کیلیے نامزد کردیا۔
جسٹس وقارکے سخت فیصلے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی ناراضگی کا سبب بھی بنتے رہے۔یہ ہی وہ جج تھے جنہوں نے فوجی عدالتوں کے ٹرائل اور سزاسے متعلق ایسے فیصلے دیے جن کی وجہ سے پاکستان کو کلبھوشن یادیو کیس میں عالمی عدالت میں فائدہ ہوا۔
حال ہی میں انہوں نے خیبرپختونخوا بھرمیں موجود متعددحراستی مراکزکوغیرآئینی قراردیتے ہوئے بندکرنے کا حکم دیاہے۔