پاکستان سمیت ایشیا، آسٹریلیا، یورپ، افریقہ، بحرِہند اوربحرالکاہل میں آج رواں برس کا تیسرا اورآخری سورج گرہن دیکھا گیا۔
لاہور، کراچی اور کوئٹہ،پشاورمیں سورج گرہن ختم ہو گیاہے،جو تقریبا اڑھائی گھنٹے تک رہا لیکن لاہور میں دھند کے باعث سورج گرہن نہ دیکھا جا سکا۔
پاکستان میں سورج گرہن کا آغاز کراچی سے 7 بج کر 34 منٹ پر ہوا، 8 بج کر46 منٹ پر سورج گرہن عروج پر تھا جبکہ 8 بج کر 48 منٹ پر یہ سورج گرہن کم ہونا شروع ہوا جو 10 بج کر10 منٹ پر ختم ہو گیا۔
کراچی میں سورج گرہن زیادہ سے زیادہ 80 فیصد رہا، جس کا مشاہدہ کرنے کے لیے کراچی یونیورسٹی میں انتظامات کیے گئے تھے، جامعہ کراچی کے آبزرویٹری ڈپارٹمنٹ میں اساتذہ اور طلبا نے سورج گرہن کا براہِ راست مشاہدہ کیا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق لاہور میں سورج گرہن صبح 7بج کر47منٹ 58 سیکنڈ پرشروع ہوا اور سورج گرہن10بج کر19منٹ28سیکنڈ پرختم ہوگیا،لاہورمیں دھند کے باعث واضح طورپرسورج گرہن نہ دیکھا جاسکا۔
کوئٹہ میں 8 بج کر 48 منٹ پر واضح جزوی سورج گرہن اپنے عروج پر پہنچ گیا، یہاں سورج کو تقریباً 64 فیصد تک گرہن لگا، جس کے بعد سورج گرہن کم ہونا شروع ہوگیا اور 10 بج کر 8 منٹ پر اختتام پذیر ہو گیا۔
کوئٹہ میں مجموعی طور پر 2 گھنٹے 27 منٹ تک سورج گرہن رہا، اس دوران شہریوں نے ایکسرے فلم کی مدد سے سورج گرہن کا نظارہ کیا۔
کوئٹہ کے علاوہ گوادر، جیوانی سمیت صوبے کے مختلف شہروں میں بھی سورج کو گرہن لگا، جس کے دوران کوئٹہ اور گوادر کی مساجد میں نماز کسوف ادا کی گئی اور خصوصی دعا کی گئی، جس میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
پشاور میں سورج گرہن ختم ہوگیا ہے، محکمہ موسمیات کے مطابق پشاور میں سورج گرہن 7 بج کر 34 منٹ پر لگنا شروع ہوا تھا۔
علمائے کرام نے سورج گرہن کے دوران نمازِ کسوف، ذکر و اذکار اور استغفار کا سلسلہ جاری رکھنے کی تاکید کی تھی۔
کراچی میں سورج گرہن کے دوران مختلف مساجد اور دیگر مقامات پر نمازِ کسوف کی ادائیگی کا سلسلہ جاری رہا۔
جامعہ این ای ڈی، ڈیفنس فیز 4 میں مسجد بیت السلام اور میمن مسجد سمیت دیگر مساجد میں بھی نمازِ کسوف ادا کی گئی جن میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
پاکستان کے مختلف شہروں میں سورج گرہن نمایاں طور پر دیکھا گیا، کہیں دھند کے باعث شہری اس منفرد منظر سے محروم بھی رہے۔
ماہرینِ طب کہتے ہیں کہ شعبۂ طب میں سورج گرہن کے کوئی ظاہری اثرات نہیں، سورج گرہن کے موقع پر الٹرا وائلٹ شعاعوں کی شدت زیادہ ہوتی ہے جس سے بچنے کے لیے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپ کر رکھنا اور چھاؤں والی جگہ پر رہنا مفید ہے۔
ماہرِ آشوب چشم سورج گرہن کے معاملے پر کہتے ہیں کہ لوگ تجسس کے طور پر اگر سورج کی طرف دیکھنا چاہتے ہیں تو آنکھ کو موٹے کالے چشمے یا آنکھ اور سورج کے درمیان کوئی فلٹر لگانا ضروری ہے، ایسا نہ کرنے سے سورج سے نکلنے والی الٹرا وائلٹ شعاعیں انسانی آنکھ کو متاثر کرسکتی ہیں اور انسان نابینا پن کی طرف بھی جا سکتا ہے۔
ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ احتیاط کے طورپرسورج گرہن کے دوران بچے، خواتین اور بزرگ افراد سایہ دار جگہ پر ر ہیں اور غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نہ نکلیں تو بہتر ہے۔
سال 2019ء کا پہلا سورج گرہن 6 جنوری کو جبکہ دوسرا 2 جولائی کو ہوا تھا۔
پاکستان میں 20 سال بعد اس قدر (80 فیصد) سورج گرہن دیکھا گیا، اس سے پہلے 11 اگست 1999ء کو پاکستان میں مکمل سورج گرہن ہوا تھا۔
سورج گرہن، لوگوں نے معذور بچوں کو مٹی میں گاڑ دیا
سورج گرہن کے ساتھ متعدد توہم پرستی کی باتیں جڑی ہوئی ہیں جن پر لوگ اندھا اعتقاد رکھتے ہیں۔
اسی توہم پرستی سے جڑی ایک بات یہ بھی ہے کہ ذہنی معذور بچوں کو اگر سورج گرہن کے وقت کھلے مقام پر مٹی میں دبا دیا جائے تو وہ شفایاب ہو جاتے ہیں۔
اس کام کو انجام دینے کے لیے متعدد ذہنی امراض میں مبتلا بچوں کے والدین صبح صادق کے وقت ہی کراچی کے ساحل سی ویو پہنچے، جنہوں نے بیلچوں اور پھاوڑوں کی مدد سے ساحل کی نرم مٹی میں گڑھے کھود کر اپنے بچوں کو گردن تک دبا دیا۔
ان لوگوں کا ماننا ہے کہ اس عمل سے ان کے بچے شفایاب ہو جائیں گے، تاہم سائنسی طور پر اس کی کوئی توجیہ نہیں ملتی، نہ ہی اس حوالے سے کوئی مثال سامنے آئی ہے کہ کسی ذہنی معذور بچے نے اس عمل سے شفا پائی ہو۔
واضح رہے کہ کراچی سمیت ملک بھر میں آج صبح کے وقت 20 سال بعد مکمل سورج گرہن دیکھا گیا ہے۔
سورج گرہن سے متعلق نہایت دلچسپ معلومات
سورج کو گرہن لگنے کا نظارہ مشرق وسطیٰ اور ایشیائی ممالک میں مکمل سورج گرہن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تاہم اس قدرتی عمل سے جڑے غیرمعمولی اور دلچسپ تصورات آج بھی مذاہب اور سائنس کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔سال 2019 کے آخری سورج گرہن کو کرسمس ڈے ایکلپس بھی کہا جارہا ہے، صدیوں سے اس فلکیاتی عمل کے حوالے سے طرح طرح کے تصورات گڑھے گئے ہیں۔
ہندو مذہب نے اسے ’راہو‘ دیوی کی بلی سے تعبیر کیا تو قدیم چین کے باسی اسے دیومالائی ڈریگن کی چال قراردیتے تھے۔کچھ توہمات آج بھی باقی ہیں، جن میں حاملہ خواتین پر اس کے مضر اثرات کا ہونا، گرہن کے اوقات میں بنائے گئے کھانے کا زہریلہ ہوجانا، یا پھر کسی بڑی قدرتی آفت کا پیش خیمہ ہونا شامل ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کی ویب سائٹ پر موجود مواد کے مطابق سائنس ان تمام تصورات کی نفی کرتی ہے، لیکن ایک حقیقت کی تصدیق بھی کرتی ہے، اور وہ ہے انسانی آنکھ سے براہ راست سورج گرہن دیکھنے کی صورت میں بینائی متاثر ہونا۔
جب چاند، سورج اور زمین کے بیچ آکر نصف یا اس سے زائد سورج کو ڈھانپ لے تو باقی حصے سے نکلنے والی تیز شعاعیں آنکھ کی پتلی کو شدید متاثر کرتی ہیں جس سے بینائی مستقل بھی جاسکتی ہے۔
اسی لیے دنیا بھرمیں اس نظارے کو دیکھنے کے شوقین افراد مخصوص حفاظتی چشموں سے ہی اسے دیکھتے ہیں۔خیال رہے کہ آج پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں سال کا آخری سورج گرہن دیکھاگیا۔