کابل انتظامیہ کے اہلکاروں کو قندھار میں رہا کردیا گیا ۔فائل فوٹو
کابل انتظامیہ کے اہلکاروں کو قندھار میں رہا کردیا گیا ۔فائل فوٹو

طالبان نے افغان حکومت کے 20 اہلکاروں کو رہا کردیا

افغانستان میں امن عمل کے حوالے سے ایک اوراہم پیش رفت ہوئی ہے اور طالبان نے اپنے ساتھیوں کی رہائی کے بعد افغان حکومت کے 20 اہلکاروں کو رہا کردیا۔

قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ٹوئٹرپراپنے بیان میں کہا تھا کہ طالبان کی جانب سے آج افغان انتظامیہ کے 20 قیدی رہا کیے جائیں گے۔سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ قیدیوں کو آج قندھار میں ریڈ کراس نمائندوں کے حوالے کیا جائے گا۔

بعدازاں افغانستان میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹوئٹ میں بتایا کہ کابل انتظامیہ کے اہلکاروں کو قندھار میں رہا کردیا گیا ہے۔

طالبان ترجمان کی جانب سے افغان اہلکاروں کی تصاویر بھی پوسٹ کی گئیں جن میں انہیں طالبان کی جانب سے رہائی کے وقت پیسے بھی دیے جارہے ہیں۔

دوسری جانب افغان حکومت نے بھی طالبان کے مزید 100 قیدی رہا کردیے ہیں، اس طرح افغان حکومت کی جانب سے 8 اپریل سے اب تک 300 طالبان قیدی رہا کیے جاچکے ہیں۔

افغان نیشنل سیکیورٹی کونسل کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اشرف غنی کے حکم کے تحت امن عمل کو بڑھانے اور کورونا کو پھیلنے سے روکنے کے اقدام کے تحت ان قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے۔

اس سے قبل گذشتہ ہفتے افغان طالبان نے قیدیوں کی رہائی سے متعلق افغان حکومت سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔طالبان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت حیلے بہانے کرکے قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کررہی ہے۔

طالبان کے اعلان کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے افغان حکومت کو خبردار کیا تھا کہ آپس کے اختلافات ختم کر کے طالبان سے معاہدہ کریں ورنہ صدر ٹرمپ امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا کا حکم دے سکتے ہیں اور افغانستان کی امداد بھی روک دیں گے۔

29 فروری 2020 کو قطر میں ہونے والے امریکا طالبان معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا آئندہ 14 ماہ کے دوران ہوگا جب کہ اس کے جواب میں طالبان کو ضمانت دینی ہے کہ افغان سرزمین القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال نہیں آنے دیں گے۔

معاہدے میں قیدیوں کی رہائی کی شرط بھی شامل تھی جس کے تحت 10 مارچ 2020 تک طالبان کے 5 ہزار قیدی اور افغان سیکیورٹی فورسز کے ایک ہزاراہلکاروں کو رہا کرنا تھا تاہم فریقین کے درمیان تنازعات اور افغان حکومت کے اعتراضات کے باعث یہ معاملہ تاخیر کا شکار ہوگیا تھا۔