متاز عالم دین اور جامعہ بنوریہ العالمیہ کے شیخ الحدیث مفتی نعیم دل کے عارضے کے باعث انتقال کرگئے۔
مفتی نعیم کے صاحبزادے نے اپنے والد کے انتقال کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے والد مفتی نعیم دل کے عارضے میں مبتلا تھے اورگزشتہ کئی روز سے ان کی طبیعت خراب تھی۔ ہفتہ کے روز طبیعت خراب ہونے پر انہیں ہسپتال منتقل کیا جارہا تھا لیکن وہ راستے میں ہی انتقال کرگئے۔
مفتی نعیم کی نماز جنازہ آج بعد نمازعصرادا کی جائے گی اور تدفین بنوریہ عالمیہ کے قبرستان میں ہوگی۔
مفتی نعیم سائٹ ایریا میں واقعے جامعہ بنوریہ کے مہتمم تھے جہاں 52 ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبہ زیر تعلیم ہیں، مرحوم نے سوگوارن میں بیوہ، 3 بیٹے اور 2 بیٹیاں چھوڑی ہیں۔
مفتی محمد نعیم 1958 میں کراچی میں پیدا ہوئے تھے اور ابتدائی تعلیم اپنے والد قاری عبدالحلیم سے حاصل کی، 1979 میں جامعتہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاون سےفارغ التحصیل ہوئے اور وہیں 16 سال تک بطور استاد خدمات انجام دیں، ان کا شمار جامعہ کے بہترین اساتذہ میں ہوتا تھا۔
مفتی نعیم 7 جلدوں پر مشتمل تفسیر روح القرآن، شرح مقامات، نماز مدلل اور دیگر کتب کے مصنف ہیں۔
مفتی نعیم نے اپنے انتقال سے کچھ دیر پہلے نجی ٹی وی سے سورج گرہن کے حوالے سے گفتگو کی تھی، اس دوران وہ طبیعت کی خرابی کے باعث مسلسل کھانستے رہے اوررک رک کر گفتگو کرتے رہے۔
اپنے انتقال سے کچھ دیر پہلے مفتی نعیم نے نجی ٹی وی سے گفتگو کے دوران اتوار کو پاکستان میں لگنے والے سورج گرہن کے حوالے سے گفتگو کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ کی واضح حدیث ہے کہ سورج اور چاند گرہن ہوتے ہیں تو یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔
ان کا کہناتھا کہ سورج گرہن کے دوران نبی کریم ﷺ کے صاحبزادے کا اتنقال ہوا تو لوگوں نے کہا کہ سورج گرہن کی وجہ سے آپ ﷺ کے صاحبزادے کا انتقال ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہ کسی کی موت سے اس کا تعلق ہےاور نہ کسی کی زندگی سے اس کا تعلق ہے۔
مفتی نعیم نے اپنی گفتگو مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے توبہ استغفار کرتے رہنا چاہیے، یہ کہا جاتا ہے کہ سورج گرہن سے حاملہ عورت کا حمل گرجاتا ہے، اس طرح کی باتیں رسومات ہیں جن کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اس مختصر گفتگوکے بعد مفتی نعیم نے گفتگو کا سلسلہ منقطع کردیا، ٹیلی فونک گفتگو کے دوران واضح محسوس ہورہا تھا کہ ان کی طبیعت ناساز ہے، وہ بار بار کھانس رہے تھے اور رک رک کر گفتگو کر رہے تھے۔