حکومت کو گھر بھیجنے کیلیے اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی کا آغازہوگیا، سب سے پہلے آصف زراداری کراچی سے وٰڈیو لنک کے ذریعے خطاب کر رہے ہیں، اس کے بعد نواز شریف لندن سے خظاب کریں گے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو آل پارٹیز کانفرنس کی میزباننی کر رہے ہیں، ن لیگ کا وفد شہبازشریف کی قیادت میں شرکت کر رہا ہے۔ فضل الرحمن، نیشنل پارٹی، اے این پی، بی این پی مینگل بھی شریک ہیں۔ جماعت اسلامی نے اپوزیشن جماعتوں کی بیٹھک میں آنے سے انکارکردیا۔
پیپلزپارٹی نے اے پی سی کیلیے اپنی تجاویز تیارکرلیں، کانفرنس میں وزیراعظم، اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعلیٰ پنجاب کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی تجاویز بھی شامل ہیں۔ کانفرنس میں اپوزیشن جماعتوں کے درمیان میثاق جمہوریت کی طرزکا نیا معاہدہ ہونے کا امکان ہے۔
اے پی سی کے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے بھی باقاعدہ تحریری معاہدہ ہو گا۔ اپوزیشن کی کوئی جماعت تحریری معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹ سکے گی۔
پیپلز پارٹی کے وفد میں یوسف رضا گیلانی، قمرزمان کائرہ، شیری رحمان سمیت دیگررہنما شامل ہیں جبکہ ن لیگی وفد میں شہباز شریف، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ آصف اور دیگر رہنما شریک ہیں۔ جے یو آئی کی جانب سے مولانا فضل الرحمن، مولانا عبدالغفور حیدری اور اکرم خان درانی شریک ہوں گے۔
کثیر الجماعتی کانفرنس میں محمود خان اچکزئی، اسفند یار ولی، آفتاب شیرپاؤ، میر اسراراللہ زہری، مولانا اویس نورانی، پروفیسر ساجد میر اورنیشنل پارٹی کے نمائندگان بھی شریک ہورہے ہیں۔
کانفرنس میں حکومت کی 2 سالہ کارکردگی پر غور ہوگا ساتھ ہی حکومتی ناکامیوں کو اجاگر کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر تمام جماعتیں حکومت گرانے اور ملک گیر منظم تحریک چلانے کا مطالبہ کریں گی۔
اے پی سی میں گلگت بلتستان الیکشن، گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت اور حکومت کی کشمیر پالیسی کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا۔ مذہبی جماعتیں بھی حالیہ صورتحال پر اپنا موقف سیاسی قیادت کے سامنے رکھیں گی۔
اجلاس میں ایف اے ٹی ایف مسائل، حکومت کی متنازع قانون سازی اور خطے کی بدلتی صورتحال بھی زیر بحث آئے گی۔