کرونا وائرس استعمال شدہ اشیا کے ذریعے دیگر ممالک سے پاکستان منتقل ہوسکتا ہے، موذی وائرس نے غریب عوام اور لنڈے کے درمیان بھی فاصلہ قائم کردیا
کرونا وائرس استعمال شدہ اشیا کے ذریعے دیگر ممالک سے پاکستان منتقل ہوسکتا ہے، موذی وائرس نے غریب عوام اور لنڈے کے درمیان بھی فاصلہ قائم کردیا

کرونا وائرس: شہری لنڈا خریدنے سے گریز کریں، طبی ماہرین کا انتباہ

رپورٹ:شرجیل مدنی
غریب کا تن ڈھانپنے اور جاڑے سے بچانے والے سستے ذریعے ’’لنڈا‘‘ اور عوام کے درمیان بھی اب کرونا وائرس نے لکیر کھینچنا شروع کردی ہے۔
جہاں ملک کی غریب آبادی لنڈے کی اشیا سستے داموں خرید کر اپنی ضروریات پورے کرتی تھی وہیں اب عوام اور لنڈے کے درمیان موذی مرض کووڈ19 نے فاصلے پیدا کرنے شروع کردیے ہیں۔
پوری دنیا میں پھر سے پھیلتی کرونا وائرس کی وبا کے پیش نظر طبی ماہرین نے شہریوں کو موسم سرما کے لئے گرم ملبوسات لنڈا بازار سے نہ خریدنے کا مشورہ دیا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس دیگر متاثرہ ممالک سے درآمد کردہ استعمال شدہ ملبوسات و دیگر اشیا کے ذریعے پاکستان منتقل ہوکر اس موذی مرض کے پھیلائو میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔
موسم سرما کی آمد سے قبل ہی شہریوں نے گرم ملبوسات کی خریداری کے لئے شہر بھر میں قائم لنڈا بازاروں کا رخ کرلیا ہے۔ تاہم طبی ماہرین کی جانب سے شہریوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اس بار سردی سے بچائوں کے لئے گرم ملبوسات لنڈا بازار سے خریدنے سے گریز کریں۔
واضح رہے کراچی شہر میں موجود بیوپاری دنیا بھر سے آیا ہوا لنڈے کا مال پورے ملک میں سپلائی کرتے ہیں جس میں گرم کپڑے، جیکٹس، جوتے، ٹوپیاں، رضائیاں، کمبل، کالین اور دیگر سامان شامل ہے۔
شہر بھر میں سب سے بڑا لنڈا بازار شیر شاہ حاجی کیمپ، لائٹ ہائوس، بلدیہ ٹائون اور صدر پر لگایا جاتا ہے جہاں پر ایس او پیز کی تو دھجیاں اڑائی جارہی ہے ساتھ ہی ساتھ پوری دنیا سے آیا ہوا لنڈے کا سامان بھی فروخت کیا جا رہا ہے جو کہ شہر بھر میں کرونا پھیلانے کا سبب بن رہا ہے۔
تاہم محکمہ صحت سندھ بھی ان تمام تر معاملات سے لاعلم نظر آتا ہے جبکہ لنڈے کا مال فروخت کرنے والے بیوپاریوں کی جانب سے لنڈے کا مال شہر کی سب سے بڑی منڈی شیر شاہ حاجی کیمپ سے جیسا آتا ہے ویسے ہی فروخت کیا جارہا ہے۔