امریکا میں آئندہ چار برسوں کے لیے منصب صدارت پرکون فائز ہوگا اس کا فیصلہ آج ہوجائے گا، ووٹنگ جاری ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق امریاکا میں اب تک 9 کروڑ 40 لاکھ کے قریب امریکی شہریحق رائے دہی استعمال کر چکےہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں امیدواروں میں کانٹے کا مقابلہ ہے۔جوبائیڈن کی کئی ریاستوں میں غیر متوقع جیت صدر ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب کا راستہ روک سکتی ہے۔
امریکا صدارتی انتخابات میں ریاستوں کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ امریکا میں دو بڑی سیاسی جماعتیں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی انتخابی میدان میں مدمقابل ہوتی ہیں جس پارٹی کے ریاست میں زیادہ ووٹ ہوتے ہیں اس ریاست کو اسی پارٹی کے رنگ سے منسوب کیا جاتا ہے اسی لیے ڈیموکریٹ کی حامی ریاستیں بلیو اور ری پبلکن کی حامی ریاستیں ریڈ اسٹیٹس کہلاتی ہیں۔
البامہ، آرکنساس، اڈاہو، انڈیانا، کینٹکی، لوزیانا، مسیسپی، نبراسکا، شمالی ڈکوٹا، اوکلاہوما، جنوبی کیرولائنا، جنوبی ڈکوٹا، ٹینیسی، یوٹا، مغربی ورجینیا، ویئومنگ، الاسکا، کنساس، مسوری، مونٹانہ اور ٹیکساس ریڈ اسٹیٹس ہیں۔
کیلی فورنیا، کولوراڈو، کنیٹی کٹ، ڈیلاویئر، ہوائی، الینوائے، مین، میری لینڈ، میساچوسیٹس،نیو جرسی، نیو میکسیکو، نیویارک، اوریگن، روڈ آئی لینڈ، ورمونٹ، ورجینیا، واشنگٹن، ایریزونا، مشی گن، منیسوٹا، نیواڈا، نیو ہیمپشائیر، پینسلوینیا اور وسکونسن کا شمار بلیو اسٹیٹس میں کیا جاتا ہے۔
جن ریاستوں میں دونوں پارٹیوں میں سے کسی کی واضح اکثریت نہیں ہوتی اور کوئی بھی پارٹی میدان مار سکتی ہے انھیں سوئنگ اسٹیٹ کہا جاتا ہے۔فلوریڈا، جارجیا،آئیووا، شمالی کیرولائنا اور اوہائیوکو سوئنگ اسٹیٹس شمار کیاجاتا ہے۔
ایک برطانوی کمپنی کا کہناہے کہ برطانوی جواری نے جوبائیڈن کے جیتنے پر1.3 ملین امریکی ڈالر کی شرط لگا دی، برطانوی بیٹنگ کمپنی کا کہناہے کہ جوبائیڈن کی جیت پر جمع کی جانے والی رقم اب تک کی سب سے بڑی سیاسی شرط ہے ، جوئے باز 4.54 ملین ڈالرز جیت سکتے ہیں ۔
یاد رہے کہ 1984 سے اب تک الیکشنوں کی درست پیشگوئی کرنے والے تاریخ دان اور پروفیسر ” ایلن لیکمین “ نے اس مرتبہ جوبائیڈن کی کامیابی کی پیشگوئی کردی ہے اور کہاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر ایچ ڈبلیو بش کے بعد پہلے صدر ہوں گے جو کہ ری الیکشن جیت نہیں پائیں گے۔