سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ تقررکرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔فائل فوٹو
سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ تقررکرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔فائل فوٹو

’’وحیدڈوگرکو معلومات فیڈ کرنے والے ہی کہانی کے اصل کردار ہیں‘‘

جسٹس قاضی فائز ریفرنس میں سپریم کورٹ کے دو ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مقبول باقر کے اختلافی نوٹ جاری کردیے گئے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے 65 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ تحریر کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ وحید ڈوگر نے جج کے خلاف ایکشن کیلیے شکایت کا اندراج کرایا، شکایت کنندہ کو اہلیہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا اسپینش نام معلوم ہونا اور لندن جائیدادوں تک رسائی حاصل کرنا حیران کن ہے، شہزاد اکبر نے نہیں بتایا کہ وحید ڈوگر کو اس سب کے بارے میں کیسے معلوم ہوا، وحید ڈوگر کا درجہ ایک شکایت کنندہ کا تھا ایک صحافی کا نہیں۔

وفاق کا یہ موقف درست نہیں کہ صحافی کو اس کا ذریعہ بتانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، اس نے اپنی تحقیقاتی خبر کسی اخبار میں شائع بھی نہیں کی، اسے شکایت کیلیے معلومات فیڈ کی گئیں، جس کسی نے بھی وحید ڈوگر کو یہ معلومات دیں وہ اس کہانی کے اصل کردار ہیں۔

جسٹس منصور نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ چیئرمین اے آر یو شہزاد اکبرنے اکیلے جج کے خلاف انکوائری کا فیصلہ کیا، وزیر قانون فروغ نسیم نے اے ار یو کی انکوائری پرکوئی اعتراض نہیں اٹھایا، شہزاد اکبرکی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سے وزیراعظم لاعلم تھے، لیکن انہوں نے وزیر قانون اور شہزاد اکبر سے ان کے غیر قانونی اقدامات پر کچھ نہیں پوچھا، صدر مملکت نے بھی ایسا کوئی سوال پوچھے بغیر ریفرنس پر دستخط کر دیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ جائیدادوں کا معاملہ ایف بی آر کو بھجوانے کا مطلب ججز فیملی معاملات پر جوابدہ ہے، ججز کی خوابدہی کا یہ تصورکوڈ آف کنڈکٹ کے برخلاف ہے جس کا عدالتی ساکھ سے کوئی تعلق نہیں، عدلیہ کی آزادی اور عدلیہ کا احتساب دو اہم ستون ہیں جن پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، یہ دونوں ستون مل کرعوام کا اعتماد اور عدالتی نظام کی صداقت کو قائم رکھتے ہیں، آئین ہر شہری کو حکومت کی مداخلت کے بغیر آزادی فراہم کرتا ہے، جسٹس عیسی کا خاندان کو بھی شہریوں کی طرح آزادی اور تحفظ حاصل ہے، جسٹس عیسی کی اہلیہ اور بچوں کو بلاکر نہ سنا گیا اور نہ ہی فریق بنایا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں قرار دیا کہ ایف بی آر کو تحقیقات کی ہدایات دینے کی ضرورت نہیں تھی، کونسل کسی بھی جج کے معاملے پر ازخود نوٹس لینے میں آزاد ہے، اداروں کو اختیارات نہ ہونے پر سپریم کورٹ اپنے حکم سے اختیارات نہیں دے سکتی، ایف بی آرکی رپورٹ کونسل کے سامنے جج کے خلاف ایک نئی شکایت ہوگی، ایف بی آر کو آرٹیکل 209 کے تحت صدرکو اپروچ کرنے کا اختیار نہیں، وفاقی حکومت یا اسکے ادارے جج کے کنڈکٹ پرکونسل کو شکایت نہیں کرسکتے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کا یہ موقف درست ہے کہ ان کے خلاف ریفرنس قانون اور حقائق کی بدنیتی پر مبنی ہے،انہیں عہدے سے بے دخل کرنے کے لیے سرکاری مشینری کا استعمال کیا گیا جس میں درخواست گزارکی خفیہ نگرانی بھی شامل ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسی کو جان بوجھ کر فیض آباد دھرنے کے فیصلے پر ٹارگٹ کیا گیا، فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے لیے اختلاف کا سبب بن گیا، جسٹس فائز عیسی کے خلاف انتقام اور ناراضگی نظرثانی کی درخواستوں میں واضح ہے جن میں فائز عیسی پر الزامات لگائے گئے اورانہیں ہٹانے کی استدعا کی گئی۔

سٹس منصورعلی شاہ نے قرار دیا کہ انتقام اور ناراضگی کی وجہ سے جسٹس عیسی کے خلاف بوگس کمپلینٹ کو پذیرائی دی گئی، اسیٹ ریکیوری یونٹ میں مبہم درخواست کا اندراج کیا گیا، جسٹس قاضی اور ان کی فیملی کی نگرانی کی گئی، ان کے خلاف غیر قانونی طریقے سے مواد اکٹھا گیا ، جسے وزیراعظم کی ایڈاوئز کیساتھ صدر مملکت کو بھیجوایا گیا، لہذا شکایت کنندہ کی شکایت کو پذیرائی دینے کے تمام اقدامات کالعدم قرار دیے جاتے ہیں، ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے اور صدر مملکت کو ریفرنس کو منظور کرکے آگے بھیجنے کا اختیار نہیں تھا۔

جسٹس مقبول باقر نے بھی 68 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں لکھا کہ ریفرنس کالعدم قرار دیے جانے کے بعد جج کے اہل خانہ کی جائیدادوں اور ان کے ٹیکس سے متعلق معاملات عوامی مفاد کے زمرے میں نہیں آتے،ایف بی آر قوانین کے مطابق 2004-2013 تک خریدی گئی جائیدادوں کے ذرائع آمدن سے متعلق معاملہ کی تحقیقات نہیں ہو سکتیں، جسٹس قاضی فائزعیسی پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔