کراچی پورٹ ٹرسٹ میں غیر قانونی بھرتی ہونے والے متحدہ دہشت گردوں اور کارکنوں کے خلاف کیس واپس لینے کی تیاری کی جارہی ہے ۔ ایڈمنسٹریشن میں تعینات اعلیٰ افسر نے وکلا کو بلاکر جعلی ڈگری اور خلاف ضابطہ بھرتی ہونے والے 940 ملازمین کی نوکریاں بچانے کیلئے اقدامات کی ہدایت کی ہے۔ وکلا نے کیس واپس لینے کیلئے ڈرافٹ بھی تیار کرلیا تاہم عدالت میں جمع کرانے کیلئے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے اجازت لینے کی شرط عائد کردی ہے ۔غیر قانونی بھرتیوں اور تنخواہوں کی مد میں خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے ۔ کے پی ٹی کی تین انکوائریوں میں بھرتیاں غیر قانونی ثابت ہوچکیں ۔ نیب نے بھی تحقیقات مکمل کرکے ریفرنس عدالت میں جمع کروادیا ہے ۔اہم ذرائع نے بتایا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ میں بابر غوری دور میں 1200 سے زائد غیر قانونی بھرتیاں کی گئی تھیں جن کے خلاف 2015 میں کارروائی کا آغاز کیا گیا ۔اس ضمن میں پہلے فیز میں 940 افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی تھی جو کہ 2016 سے عدالت میں زیر سماعت ہے۔ذرائع نے بتایا کہ اس سے قبل کے پی ٹی انتظامیہ نے الگ الگ وقتوں میں تین اعلیٰ سطح کی انکوائری کمیٹیاں بنائیں ۔ پہلی کمیٹی کمانڈر کراچی ایڈمرل عارف اللّٰہ حسینی،طارق ھدی کلکٹر کسٹمزاور ریئر ایڈمرل حبیب الرحمٰن پر مشتمل تھی ۔ دوسری کمیٹی فرقان بہادر خان ، رابعہ عادل جواری اور محمد حفیظ جبکہ تیسری کمیٹی علی مردان عباسی، جمال خان اورکمانڈر خالد محمود کمانڈنٹ پر مشتمل تھی ۔تینوں کمیٹیوں نے مذکورہ بھرتیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی۔مذکورہ سفارشات اور انکوائری رپورٹ کی روشنی میں منسٹری آف میری ٹائم افیئرز،اسٹبلشمنٹ ڈویژن اور سابق وزیراعظم کی منظوری کے بعد ملازمین کو شوکاز نوٹس جاری کیئے گئے ۔ جبکہ منسٹری آف میری ٹائم افیئرز نے بھرتیوں کی وجہ سے پہنچنے والے سرکاری خزانے کے نقصان کی تحقیقات کیلئے معاملہ نیب کے سپرد کیا ۔نیب نے انکوائری مکمل کرنے کے بعد بھرتی کے ذمہ دار افراد کو گرفتار بھی کیا ۔ تاہم ڈیڑھ برس بعد ملزمان نے ضمانت حاصل کرلی ہے ۔جبکہ بعض ملزمان عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرانے میں کامیاب ہوئے ۔ ذرائع نے بتایا کہ ان بھرتیوں میں کئی ایسے اقدامات بھی اٹھائے گئے جو کہ کے پی ٹی کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں اٹھائے گئے ہوں گے جن میں سے ایک مثال یہ ہے کہ کلرک کی پوسٹ ایک متحدہ کارکن کو بھرتی کیا گیا اور چند دنوں بعداسے گریڈ 17 میں ترقی دے دی گئی اور یوں ترقی کے تمام قواعد بالائی طاق رکھ دیے گئے ۔ذرائع کے مطابق ان دنوں کے پی ٹی کے ایچ آر شعبہ میں ان افراد کی تعیناتیاں ہیں جنہوں نے مذکورہ غیر قانونی بھرتیوں میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ اب وہی افسران ان غیر قانونی بھرتیوں کے خلاف بنائے گئے کیسز ختم کرانے کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں ۔ امت کو ذرائع نے بتایا کہ کے پی ٹی میں ڈیپوٹیشن پر تعینات نئے جنرل منیجر ایڈمنسٹریش طارق بشیر نے کیس پٹیشن نمبر 20/12 کے دونوں طرف کے وکیلوں کو پیر کو بلایا اور کے پی ٹی کے وکیل پر دباؤ ڈالا کہ وہ بابر غوری کی بھرتیوں کے حق میں کیس حل کرنے پر کام کریں ۔ انتظامی افسر کا مطالبہ تھا کہ کسی صورت بھی فیصلہ ان کے حق میں اور کے پی ٹی کے خلاف آنا چاہئیے۔اس ضمن میں ذرائع نے امت کو بتایا کہ کے پی ٹی کے وکیل نے کیس واپس لینے سے متعلق ڈرافٹ تیار کردیا ہے لیکن اعلیٰ افسر کے سامنے شرط عائد کی ہے کہ کیس ختم کرنے کا جو بیان عدالت میں جمع ھونا ھے وہ کے پی ٹی بورڈ آف ٹرسٹیز کی منظوری کے بعد جمع کرایا جائے گا ۔مذکورہ صورت حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو انکوائری اور کارروائی منسٹری اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی منظوری کے بعد کی گئی اور اس سلسلے میں نیب ریفرنس بھی دائرکیا گیا تو کس قانون کے تحت کے پی ٹی کے وکیل کا تیار کردہ ڈرافٹ بورڈ کی منظوری کے لئے بھیجا جائے گا۔تیار کئے گئے ڈرافٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کی طرف سے بورڈ آف ٹرسٹیز کی منظوری کے ساتھ ادارے کے بہترین مفاد میں اس کیس کو ختم کرنے کے لئے استدعا کی جارہی ہے ۔اس ضمن میں کے پی ٹی ایک کمیٹی تشکیل دے گی تاکہ جاری کردہ اظہار وجوہ کے نوٹسز کے انجام کی چانچ پڑتال مندرجہ ذیل طریقہ سے طے کرے،اظہار وجوہ کے نوٹسز جو کہ ان لوگوں کو جاری ہوئے ھیں جو ورک مین کی تعریف میں آتے ہیں واپس لے لیئے جائیں گے سوائے ان لوگوں کے جو کرمنل کیس میں ملوث ھیں یا جن کی اسناد جعلی ہیں۔اسی طرح اظہار وجوہ کے نوٹسز جو کہ ان لوگوں کو جاری ہوئے ہیں جو آفیسر کی تعریف میں آتے ہیں واپس لے لیئے جائیں گے سوائے ان لوگوں کے جو کرمنل کیس میں ملوث ہیں یا جن کی اسناد جعلی ہیں اور جو قانون کے مطابق اپنی پوسٹ کے مطابق تعلیمی قابلیت نہیں رکھتے۔مندرجہ بالا دونوں شقوں کے مطابق لوگوں کے خلاف اس اظہار وجوہ کے نوٹسز کے حوالے سے کوئی تادیبی کارروائی غیر قانونی بھرتی اور ضابطہ کی خلاف ورزی کی مد میں نہیں کی جائے گی۔وہ افراد جو کرمنل کیسز میں ملوث ھیں یا جن کی اسناد جعلی ہیں ان سے قانون کے مطابق معاملہ کیا جائے گا اور انہیں موقف سنانے کا موقع دیا جائے گا۔شوکاز کے حامل ملازمین کو گزشتہ مالی فوائد کمیٹی کی رپورٹ پر منحصر ہوں گے۔اس لئے عدالت سے استدعا ہے کہ اس کیس کو مندرجہ بالا نکات پر ختم کیا جائے۔