نمائندہ امت
پاکستان میں کورونا کی دوسری لہر نے تعلیمی اداروں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ دوسری جانب ویکسین کی جلد دستیابی کا امکان نہیں۔ ایک چینی کمپنی کے اشتراک سے دوا کے کلینیکل ٹرائل کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے تحقیقی مراکز میں جاری ہیں۔ تجربات کے دوران ویکسین 85 فیصد موثر ثابت ہوچکی ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول اطلاعات کے مطابق ایک چینی کمپنی کے اشتراک سے کورونا وائرس کی ویکسین کے تیسرے مرحلے کے کلینیکل ٹرائلز آغا خان میڈیکل یونیورسٹی کراچی، انڈس ہسپتال کراچی، شوکت خانم لاہور، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اور شفا انٹرنیشنل اسلام آباد کے تحقیقی مراکز میں جاری ہیں۔ ان ٹرائلز کے حوالے سے کافی مثبت رپورٹیں آرہی ہیں۔ مگر ابھی تک اس کو سو فیصد قابل اعتماد نہیں کہا جا سکتا۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرام کا کہنا ہے کہ اب تک کے کلینکل ٹرائلز میں کافی مثبت پیش رفت دیکھی گئی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ ویکسین 85 فیصد موثر ہے۔ تاہم کلینیکل ٹرائلز کا تیسرا مرحلہ مکمل ہونے میں ابھی مزید وقت لگ سکتا ہے۔ اس ویکسین کا تجربہ مختلف عمر اور مختلف امراض میں مبتلا افراد پر کیا جا رہا ہے۔ اب تک یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ شوگر اور بلڈ پریشر کے مریضوں پر ویکیسن کے اثر میں وقت لگتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چینی کمپنی کے اشتراک سے تیار کردہ ویکسین کے ٹرائلز کا پہلے ساڑھے سات ہزار افراد کا ہدف رکھا گیا تھا جو اب بڑھا کر 10 ہزار کر دیا گیا ہے۔
اسلام آباد کے شفا انٹرنینشل اسپتال کے کلینیکل ریسرچ ایسوسی ایٹ ڈاکٹر محسن علی کے مطابق ہر اسپتال کے نتائج مختلف سامنے آرہے ہیں۔ شفا انٹرنیشنل میں اب تک 1700 افراد پر تجربہ کیا جا چکا ہے، لیکن ان کے نتائج آنے کے بعد بھی 12 ماہ تک ان اثرات کو دیکھنا ہوگا۔ کسی بھی ویکسین کی تیاری کے حوالے سے پاکستان میں کلینیکل ٹرائلز کا یہ پہلا تجربہ کیا جارہا ہے جس کی نگرانی قومی ادارہ برائے صحت کر رہا ہے۔ جبکہ رضاکاروں کی سیفٹی کے لیے بھی ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے، جس میں ڈرگ ریگولیٹری کے عہدیداران اور ماہرین شامل ہیں۔
قومی ادارہ برائے صحت کے ترجمان نے کلینیکل ٹرائلز پر ہونے والی پیش رفت پر بات کرنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ٹرائلز کا مرحلہ کب مکمل ہوگا اور اس کے اب تک نتائج کیا ہیں؟ ابھی تک اس حوالے سے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ کراچی کے انڈس اسپتال کے ڈاکٹر عبدالباری پاکستان میں ہونے والے کلینیکل ٹرائلز میں خود بھی بطور رضا کار حصہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انڈس اسپتال میں اب بھی رضا کاروں کو ویکسین دی جارہی ہے۔ اب تک سات سو کے قریب افراد پر تجربہ کر چکے ہیں۔ لیکن اس کے نتائج اس وقت تک واضح ہوں گے جب تمام پانچ سینٹرز میں رضاکاروں کے اہداف حاصل کر لیں گے اور ان پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس تمام مرحلے کو مکمل ہونے میں مزید تین ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
کلینیکل ٹرائلز کا تیسرا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد چوتھا مرحلہ ویکسین کی منظوری کا ہے جو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی تمام نتائج کا جائزہ لینے کے بعد دے گی۔ ڈرگ ریگلولیٹری اتھارٹی کے ایک اعلی عہدیدار کے مطابق عمومی طور پر ویکسین کو اپروول دینے کا مرحلہ طویل ہوتا ہے۔ لیکن عالمی ایمرجنسی کے باعث اس کی مدت کو کم کیا جاسکتا ہے، جس کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ جن لوگوں پر ویکسین استعمال کی گئی ہے، ان پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
دوسری جانب کورونا وائرس کی دوسری لہر میں تعلیمی ادارے بھی متاثر ہورہے ہیں۔ محکمہ صحت پنجاب کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دو ماہ کے دوران اسکول کھلنے کے بعد سے اب تک 446 طلبہ اور اساتذہ کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ جبکہ تعلیمی اداروں میں انفیکشن کا تناسب تقریباً ایک فیصد کے لگ بھگ ہے۔ یاد رہے کہ این سی او سی کی جانب سے پہلے ہی تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے کورونا کیسز کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جا چکا ہے۔ چنانچہ سردیوں کی چھٹیوں کو قبل از وقت اور طویل کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ اسی سلسلے میں 16 نومبر کو وفاقی وزیر برائے تعلیم مختلف صوبوں کے وزرا سے مشاورت کریں گے اور ملک کے تعلیمی اداروں میں درپیش صورتحال پر آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔ محکمہ اسکول ایجوکیشن پنجاب کے ترجمان عمر خیام کے مطابق جن اسکولوں میں کورونا وائرس کے کیسز زیادہ تعداد میں پائے گئے ہیں، انہیں بند کر دیا گیا ہے۔ اب تک محکمہ اسکول ایجوکیشن پنجاب کی جانب سے صوبے بھر میں 28 اسکولوں کو بند کیا گیا ہے۔ جبکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران تعلیمی اداروں میں کورونا وائرس کے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اسکولوں کے علاوہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی طلبہ کورونا وائرس کا شکار ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بیشتر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے ایسے شعبہ جات کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا، جہاں کورونا وائرس کے کیسز سامنے آئے تھے۔ ستمبر سے لے کر اب تک پنجاب بھر کے اسکولوں میں تقریباً دو لاکھ بیس ہزار سے زائد ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔ جبکہ یونیورسٹیوں اور مدارس میں دو ماہ کے دوران اب تک تقریباً بیس ہزار ٹیسٹ کیے گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان اداروں میں کیسز مثبت آنے کی شرح کم نظر آتی ہے۔
سیکریٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کیپٹن (ر) محمد عثمان کے مطابق میڈیکل کالجز میں کیسز کی تعداد بڑھنے سے متعلق شکایات، محکمہ صحت کو کورونا ہیلپ لائن پر موصول ہوئی ہیں۔ انہوں نے تمام میڈیکل کالجز کے طلبہ کی سکریننگ کے احکامات جاری کردیئے ہیں۔ جبکہ متعلقہ ٹیموں کو میڈیکل کالجز میں بروقت سیمپلنگ مکمل کرنے کی ہدایات بھی دی گئی، تاکہ حالات کا اندازہ لگایا جا سکے۔
ادھر کئی والدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو اسکولوں میں بھجنا بند کردیا ہے۔ والدین نے اسکولوں کی انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ آن لائن کلاسز رکھیں ۔ وہ ان خطرناک حالات میں بچوں کو اسکول بھیجنے کیلئے تیار نہیں۔