کراچی۔ امریکہ کے سابق صدر براک اوباما نے اپنی کتاب ’اے پرامسڈ لینڈ‘ میں انکشاف کیا ہے کہ ایبٹ آباد میں مبینہ طور پر موجود القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کو نشانہ بنانے کیلیے انہوں نے اسامہ کے کمپاؤنڈ پر بم برسانے پر بھی غور کیا تھا۔ سابق امریکی صدر نے کتاب میں ان اطلاعات کی بھی بلواسطہ طور پر تصدیق کردی کہ ایبٹ آباد میں آنے والے امریکی فوجی پاکستان افواج کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار تھے۔
اوباما نے کتاب میں لکھا کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کی حتمی تصدیق آخر وقت تک نہیں ہوسکی تھی تاہم دستیاب معلومات سے یہی معلوم ہو رہا تھا کہ وہ القاعدہ سربراہ ہی ہیں۔ اوباما کے مطابق اس کے بعد انہیں نشانہ بنانے کیلیے جو آپشن زیر غور آئے ان میں سب سے محفوظ اسامہ کے کمپاؤنڈ کو فضا سے بم برسا کر تباہ کر دینے کا تھا۔ ایسا کرنے سے کسی بھی امریکی فوجی کو پاکستان کی سرزمین پر جانے کی ضرورت نہیں پڑتی جب کہ پاکستان بھی بآسانی سے اس بات کی تردید کردیتا کہ حملے میں امریکی ملوث ہیں۔
اوباما نے کہاکہ تاہم عمارت میں 4 بالغ مردوں کے علاوہ 5خواتین اور 20 بچے بھی موجود تھے جو اس حملے میں مارے جاتے، اس کے علاوہ بم حملے سے صرف اسامہ کمپاؤنڈ ہی ملیا میٹ نہیں ہوتا بلکہ ارد گرد کے مکانات بھی تباہ ہو جاتے لہذا انہوں نے اس حملے کی اجازت نہیں دی۔
اوباما کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے حملے سے اسامہ بن لادن کی موت کی تصدیق کرنا مشکل ہو جاتا۔ سابق امریکی صدر کے مطابق ایک اور آپشن جو زیرغور آیا وہ یہ تھا کہ ڈرون حملے میں اسامہ بن لادن کو اس وقت نشانہ بنایا جائے جب وہ اپنے گھر کے احاطے میں واک کر رہے ہوں۔ اس سے اضافی جانی نقصان نہیں ہوتا تاہم اس صورت میں بھی اسامہ بن لادن کی موت کی تصدیق ممکن نہیں تھی لہٰذا یہ فیصلہ ترک کردیا گیا۔
اوباما کے مطابق جب یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ نیوی سیلز ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ایبٹ آباد پہنچ کر حملہ کریں تو اگلا سوال یہ تھا کہ اگر امریکی اہلکاروں کی پاکستانی پولیس یا فوج سے مڈ بھیڑ ہوئی تو کیا ہوگا۔
کتاب کے مطابق ایبٹ آباد آپریشن کے انچارج میک رون کا کہنا تھا کہ ان کی منصوبہ بندی کے حساب سے امریکی اہلکار اپنی پوزیشنیں برقرار رکھیں گے اس دوران سفارتی ذرائع سے پاکستان سے بات کی جائے گی اور مذاکرات کے ذریعے ان کی محفوظ واپسی ممکن بنائی جائے گی۔ تاہم اوباما کے مطابق پاک امریکہ کشیدہ تعلقات کے سبب وہ امریکی اہلکاروں کے مستقبل کا فیصلہ پاکستانی حکومت کے ہاتھوں میں دینے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تھے لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ حملہ کرنے والے اہلکاروں کی تعداد بڑھائی جائے، اسی بنا پر دو کے بجائے چار ہیلی کاپٹر کارروائی میں شامل کیے گئے۔ دو اضافی ہیلی کاپٹروں کا مقصد کمپاؤنڈ میں موجود ٹیم کو ’بیک اپ‘ فراہم کرنا تھا۔
اوباما کے اس بیان سے ان اطلاعات کی تصدیق ہوتی ہے کہ امریکہ نے ایبٹ آباد حملے کے وقت پاکستانی فوج سے لڑائی کی تیاری بھی کر رکھی تھی۔ سابق امریکی صدر نے لکھا کہ حملے کے بعد جنرل مائیک مولن نے پاکستانی آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو فون کیا، اگرچہ ان کی گفتگو شائستہ رہی تاہم جنرل کیانی نے امریکہ سے کہا کہ وہ جلد سے جلد اس معاملے کی وضاحت کرے تاکہ پاکستانی عوام کو سنبھالا جا سکے۔
اسی کتاب میں اوباما نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ایبٹ آباد آپریشن میں ایک پاکستانی نژاد امریکی نے بھی حصہ لیا تھا۔ یہ پاکستانی نژاد امریکی مترجم کی حیثیت سے ٹیم میں شامل تھا اور جس وقت امریکی اہلکار اندر آپریشن کر رہے تھے وہ مقامی لوگوں کو دور جانے کا کہہ رہا تھا۔
یاد رہے کہ ایبٹ آباد حملے کے عینی شاہدین نے بتایا تھا کہ امریکی فوجی پشتو اور اردو میں لوگوں کو وہاں سے دور جانے کا کہتے رہے۔براک اوباما لکھتے ہیں کہ جب فیصلہ کرنے کا وقت آیا تو وہ وائٹ ہاؤس میں اپنی رہائش گاہ کے حصے’ٹریٹی روم‘ میں موجود تھے اور ٹی وی پر باسکٹ بال کا مقابلہ چل رہا تھا۔ان کے قریبی ترین رفقا میں سے اکثریت نیوی سیلز کو بھیجنے پر راضی تھی البتہ اس وقت کے نائب صدر اور2020 کے صدارتی انتخاب کے فاتح جو بائیڈن ان میں سے نہیں تھے۔ جو بائیڈن نے ان کو صبر کرنے کا مشورہ دیا اور وہ نیوی سیلز کو بھیجنے کے خلاف تھے۔
سیکریٹری دفاع رابرٹ گیٹس بھی اس حملے کے خلاف تھے اور اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جو بائیڈن نے اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ مشن کی ناکامی کی صورت میں پیدا ہونے والی صورتحال انتہائی گھمبیر ہوگی اور یہ کہ اس حملے کی اجازت دینے سے قبل خفیہ اداروں کی جانب سے ایبٹ آباد کے مکان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا پورا یقین کر لیں۔
صدر اوباما اس پر لکھتے ہیں بطور صدر میرے ہر بڑے فیصلے پر میں نے جو بائیڈن کی اس خاصیت کو سراہا ہے کہ وہ میری ہاں میں ہاں نہیں ملاتے اور مجھ سے سخت سوالات کرتے ہیں، اور انھی کی وجہ سے مجھے خود ذہنی طور پر وہ آسانی اور جگہ ملتی ہے تاکہ میں اپنے فیصلوں پر مزید سوچ بچار کر سکوں۔اوباما لکھتے ہیں کہ جب نیوی سیلز نے تصدیق کر دی کہ القاعدہ کے سربراہ کو ہلاک کر دیا گیا تو ان کو کچھ تسکین حاصل ہوئی اور جس کے بعد انھوں نے سابق امریکی صدور بل کلنٹن اور جارج بش جونیئر کو اس خبر کی اطلاع دی اور اس کے بعد چند اتحادی ممالک سے رابطہ کیا۔
اوباما لکھتے ہیں کہ جب انھوں نے صدارت کا عہدہ سنبھالا تو اس وقت امریکی حکام نے اسامہ بن لادن کی کھوج لگانے کا سلسلہ تقریباً چھوڑ دیا تھا لیکن انھوں نے اس کو اپنی سب سے اوّلین ترجیح بنا لیا۔انھوں نے اپنے قریبی مشیروں کو مئی 2009 میں ہی کہہ دیا تھا کہ وہ اسامہ بن لادن کی کھوج لگانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے منصوبہ بندی شروع کی جائے اور ہر تیس دن کے بعد انھیں اس کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔اس بارے میں سابق امریکی صدر لکھتے ہیں کہ ان کے لیے سب سے ضروری امر یہ تھا کہ اس منصوبہ کو مکمل طور پر خفیہ رکھا جائے اور نہ صرف امریکی انتظامیہ میں نہایت گنتی کے کچھ لوگوں کو اس کے بارے میں علم تھا، پاکستانی حکام تک اس منصوبے کی بھنک بھی نہ پڑنے دی گئی۔
اوباما کے بقول پاکستانی حکومت نے افغانستان کے معاملے پر ہمارا بہت ساتھ دیا لیکن یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ ان کی فوج اور خفیہ اداروں میں چند ایسے عناصر ہیں جو ابھی بھی القاعدہ اورطالبان سے تعلقات قائم رکھتے ہیں اور ان کو بطور اثاثہ استعمال کرتے ہیں جن کی مدد سے انڈیا کو کمزورکیا جا سکے۔
واضح رہے کہ2011 کو یکم اور دو مئی کی درمیانی شب کو کیے گئے امریکی حملے میں اسامہ بن لادن کو شہیدکر دیا گیا تھا۔