کورونا وائرس کی ویکسین بیچنے کا وسیع کاروبار شروع ہوا چاہتا ہے۔ امریکی، برطانوی اور جرمن کمپنیاں اپنی اپنی ویکیسن کے ساتھ تیار بیٹھی ہیں۔ جہاں کئی ممالک کے عوام استفسار کر رہے ہیں کہ ان تک ویکسین کب پہنچے گی۔ وہیں ان بڑی کمپنیوں کے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ اس ویکسین سے کتنا کمائیں گی۔ یہ سوال ویکیسن کی تیاری سے مہینوں پہلے سرمایہ کاری پر مشاورت فراہم کرنے والی کمپنیوں کے دفاتر میں گونج رہا تھا۔ اور اس کا تسلی بخش جواب ملنے کے بعد ہی بڑی فارما سیوٹیکل کمپنیوں نے ویکیسن تیار کی ہے۔
امریکہ میں ’’ایورکور‘‘ کے نام سے ایک انوسٹمنٹ بینکنگ کمپنی ہے۔ جو فارما سیوٹیکل کمپنیوں کو سرمایہ کاری پر مشاورت فراہم کرتی ہے۔ اس کمپنی کے ایک اہم تجزیہ کار اور منیجنگ ڈائریکٹر جاش شیمر آج سے چند ماہ قبل اپنے دفتر میں بیٹھے تھے۔ ان کے سامنے فارما کمپنیوں کی طرف سے آنے والا یہ سوال تھا کہ اگر وہ کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرتی ہیں تو انہیں کتنی آمدن ہوگی۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ اور دیگر ممالک کی جانب سے فارما کمپنیوں کو ویکسین کی تیاری کیلئے اربوں ڈالر کی فنڈنگ پہلے ہی جاری ہو چکی تھی۔ تاکہ لاکھوں کی تعداد میں موت کے منہ میں جانے والے مغربی باشندوں کو بچایا جا سکے۔ لیکن اس کے باوجود فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی دلچسپی انسانیت کی خدمت سے زیادہ اپنے منافع میں تھی۔ جاش شیمر نے کچھ دستاویزات نکالیں اور حساب لگانا شروع کر دیا۔ 11 اگست 2020ء کو انہوں نے ایک تخمینہ جاری کیا۔ جس میں کہا گیا کہ کووڈ 19 کی ویکیسن کیلئے 100 ارب ڈالر (15 ہزار 789 ارب روپے) کی مارکیٹ موجود ہے۔ یعنی یہ ویکسین بنانے والی کمپنیاں 100 ارب ڈالر فوری طور پر کما لیں گی۔ اس خطیر آمدن میں سے ٹیکس وغیرہ ادا کرنے کے بعد خالص منافع کی مد میں ان کمپنیوں کو 40 ارب ڈالر حاصل ہوں گے۔ جاش شیمر نے لکھا کہ یہ ان کا ’’محتاط‘‘ تخمینہ ہے۔
کورونا وائرس کی ویکسین تیار اور فروخت کرنے کے لیے اس وقت نصف درجن سے زائد بڑی کمپنیاں مارکیٹ میں ہیں۔ ان میں سر فہرست امریکی کمپنی ماڈرنا (Moderna) ہے۔ جس نے اپنی ویکسین کے تجربات کے نتائج کا اعلان دو روز قبل کیا ہے۔ کمپنی کے مطابق اس کی ویکسین 95 فیصد کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ ماڈرنا کی ویکسین کے تجربات میں امریکہ میں 30 ہزار افراد نے حصہ لیا۔ ان میں نصف افراد کو ویکسین لگائی گئی۔ جبکہ نصف کو ’’ڈمی ویکسین‘‘ کے انجکشن دیئے گئے۔ یعنی ان میں کوئی دوا موجود نہیں تھی۔ ویکسین کے کاروبار کی دوڑ میں دوسرے نمبر پر امریکہ ہی کی کمپنی فائزر (Pfizer) ہے۔ جس نے اپنی جرمن شراکت دار کمپنی بیونٹک (BioNTech) کے ساتھ مل کر ویکسین تیاری کی ہے۔ ماڈرنا کو امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشیئس ڈیزیز کی اعانت حاصل تھی۔ تاہم ماڈرنا کے مقابلے میں فائزر کی ویکیسن کو مشکلات کا سامنا اس لیے کرنا پڑ رہا ہے کہ اس ویکسین کو محفوظ طریقے سے رکھنے کے لیے منفی 70 ڈگری سیلسیئن درجہ حرارت کی ضرورت ہے۔ اسی بنا پر کہا جا رہا ہے کہ ترقی پذیر اور گرم ممالک میں فائزر کی ویکسین نہیں بھیجی جائے گی۔ فائزر کے مطابق اس کی ویکسین 90 فیصد تک موثر ہے۔ جبکہ اسے منفی 20 ڈگری پر رکھا جا سکتا ہے۔
ویکسین بنانے والی کمپنیوں میں اگلا نام کوویکس (COVAX) کا ہے۔ کوویکس میں اہم کردار بل گیٹس کا ہے۔ بل گیٹس کی کوششوں سے پولیو ویکسین کی تیاری سے گاوی (Gavi) نام کا ایک اتحاد قائم ہوا تھا۔ کوویکس کی قیادت گاوی ہی کر رہا ہے۔ ویکسین کی تیاری میں بل گیٹس کی شمولیت کے سبب کورونا وائرس کی ویکسین کے بارے میں افواہیں بھی پھیلنا شروع ہوچکی ہیں۔ جن میں ایک یہ ہے کہ ویکسین کے بہانے لوگوں کے جسموں میں مائیکرو چپ نصب کی جا رہی ہے۔ جس کے ذریعے ان کی نگرانی کی جائے گی۔ بل گیٹس نے کورونا وائرس کے حوالے سے گزشتہ دنوں پاکستان کی قیادت سے بھی بات کی تھی۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ پاکستان کو کوویکس کی تیار کردہ ویکسین فراہم کی جائے گی۔ پاکستان کے لیے امید کی ایک اور کرن چینی کمپنی سینوویک (Sinovac) کی صورت میں بھی موجود ہے۔ سینوویک کی ویکسین کے تجربات برازیل، ترکی اور انڈونیشیا میں جاری ہیں۔ جبکہ چین کے شہر جیاشنگ میں یہ ہنگامی بنیادوں پر استعمال کے لیے بھی دستیاب ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ کی کمپنی نوواویکس بھی کورونا وائرس کی ویکسین تیار کر رہی ہے۔ ویکسین کی تیاری اور تجربات میں مصروف دیگر کمپنیوں میں جانسن اینڈ جانسن اور فرانسیسی کمپنی سانوفی شامل ہیں۔ سانوفی اور جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ 2 سے 8 ڈگری سیلسیئن پر بھی محفوظ کی جا سکے گی۔ فرانس کی ایک اور کمپنی ویلنیوا بھی ویکیسن بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
ان بڑی کمپنیوں کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی اور برطانیہ کی فارما سیوٹیکل کمپنی آسترازینکا (AstraZeneca) نے بھی مل کر ویکسین تیار کی ہے۔ اس ویکسین کے تجربات ابھی جاری ہیں اور نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا۔ تاہم برطانوی اخبار گارجین کے مطابق محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ نتائج ’’جلد‘‘ ہی سامنے لائے جائیں گے۔ اخبار کے مطابق مارڈنا اور آسترازینکا/ آکسفورڈ کی ویکسین کی تیاری کے لیے اگرچہ ٹیکنالوجی الگ الگ استعمال ہوئی ہے۔ تاہم بنیادی اصول ایک ہی ہے۔ لہٰذا ماڈرنا کے اچھے نتائج کا مطلب یہ ہے کہ آسترازینکا کی ویکسین بھی موثر ثابت ہوگی۔ برطانیہ کی زیادہ امیدیں اسی ویکسین سے ہیں۔ گوکہ برطانوی حکومت نے امریکہ سے ویکسین خریدنے کا معاہدہ بھی کرلیا ہے۔ برطانیہ کی طرح آسٹریلیا میں بھی ایک یونیورسٹی اور فارما سیوٹیکل کمپنی مل کر ویکسین بنا رہے ہیں۔ کوئینزلینڈ یونیورسٹی اور بائیو ٹیکنالوجی کمپنی سی ایس ایل کی ویکسین ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔
مغربی ماہرین کے مطابق ماڈرنا اور فائزر کی ویکسین فوری طور پر دستیاب ہو جائے گی۔ جبکہ اس کے بعد کوویکس اور نوواویکس کی ویکسین بھی 2021ء کے ابتدائی مہینوں میں مارکیٹ میں آئے گی۔ آکسفورڈ/ آسترازنیکا کی ویکسین 2021ء کے پہلے نصف حصے میں مارکیٹ میں پہنچے گی۔ کوئینز لینڈ یونیورسٹی کی ویکسین اگلے برس کے وسط میں آنے کا امکان ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں نے ان کمپنیوں کے ساتھ ویکسین کی کروڑوں خوراکوں کی فراہمی کے لیے معاہدے پہلے ہی کر لیے ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں آسترازنیکا ویکسین کی تیاری کی کوششوں کے باوجود حکومت لندن نے فائزر سے 4 کروڑ خوراکوں اور ماڈرنا سے 50 لاکھ خوراکوں کی فراہمی کا معاہدہ کیا ہے۔ آئندہ چند دنوں میں اربوں ڈالر کی رقم حکومتوں کے خزانوں سے نکل کر ان کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں منتقل ہونے والی ہے۔
امریکی سرمایہ کار ایورکور کے تجزیہ کار جاش شیمر نے جو حساب لگایا۔ اس کے مطابق کورونا وائرس کی ویکسین سے سب سے زیادہ آمدن ماڈرنا کو ہوگی۔ 100 ارب ڈالر میں سے 40 فیصد یعنی 40 ارب ڈالر اس امریکی کمپنی کے اکاؤنٹس میں جائیں گے۔ جاش شیمر کے تخمینے میں کہا گیا تھا کہ دوسرے نمبر پر نوواویکس کو مارکیٹ کا 20 فیصد حصہ ملے گا۔ تاہم یہ اعداد و شمار اب تبدیل ہو سکتے ہیں۔ نوواویکس شروع میں باقی کمپنیوں سے آگے تھی۔ اس کی ویکسین کی منظوری کے مراحل تیز کرنے کے لیے امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی نے اسے ’’فاسٹ ٹریک ڈیزیگنیشن‘‘ دے دیا تھا۔ تاہم ماڈرنا کی جانب سے کامیاب تجربات کے اعلان کے بعد نوواویکس کے حصص کی قیمتیں گر گئی ہیں۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ 100 ارب ڈالر کی مارکیٹ میں سے بڑا حصہ ماڈرنا کو جائے گا اور باقی رقم فائزر اور دیگر کمپناں لیں گی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ کمپنیاں اپنے اپنے ممالک کی حکومتوں سے اربوں ڈالر کی فنڈنگ حاصل کر چکی ہیں۔ صرف امریکہ میں چھ بڑی کمپنیوں کو مجموعی طور پر 12 ارب ڈالر حکومتی خزانے سے فراہم کیے گئے۔ اس کے باوجود ویکسین بنانے والی کمپنیاں بھاری منافع کمانے کیلئے پر تول رہی ہیں۔ ویکسین کی ایک خوراک کی قیمت 20 سے 35 ڈالر رکھی جا رہی ہے۔ جو 3 ہزار روپے سے لے کر ساڑھے پانچ ہزار روپے بنتی ہے۔
تاہم معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں۔ یہ کمپنیاں اب ہر برس اربوں ڈالر کمائیں گی۔ سرمایہ کاری کے حوالے سے صف اول کی کمپنیوں مارگن اسٹینلے اور کریڈٹ سوئس نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ کورونا وائرس کی ویکسین ہر برس لگوانے کی ضرورت پڑے گی۔ جیسے فلو کی ویکیسن لوگ ہر برس لگواتے ہیں۔ لہٰذا فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو کورونا ویکسین کی فروخت سے سالانہ کم ازکم 10 ارب ڈالر کی آمدن ہوگی اور یہ ان کا مستقل کاروبار بن جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں فارما کمپنیوں نے ہر سال 1598 ارب روپے کی کمائی پکی کر لی ہے۔ مارگن اسٹینلے کے تجزیہ کار میتھو ہیرسن نے کہا کہ ’میرا بنیادی تجزیہ یہ ہے کہ کورونا وائرس جانے والا نہیں۔ آپ کو ہر برس ویکسین لگوانی ہوگی‘۔ کریڈٹ سوئیس سے تعلق رکھنے و الے ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا ویکسین کی سالانہ مارکیٹ کا حجم 10 ارب ڈالر سے کہیں زیادہ ہو گا۔ ان ماہرین کے مطابق 10 ارب ڈالر کی ویکسین تو ہر برس صرف امریکہ میں فروخت ہوگی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آسترازینکا جیسی وہ کمپنیاں جو بغیر نفع کے ویکسین فراہم کرنے کا دعویٰ کر رہی ہیں۔ وہ بھی ابتدائی خوراکوں کی فراہمی کے بعد ویکسین سے رقم کمانا شروع کر دیں گی۔