اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر میں زندگی کے 35 سال گزارنے کے بعد کاون ہاتھی کوآج کمبوڈیا روانہ کیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق کاون کوغنودگی میں طیارے کے ذریعے کمبوڈیا منتقل کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں کاون کو ڈاٹ گن سے بے ہوش کرکے کنٹینر میں رکھا جائے گا، جس کے بعد یہ کنٹینر طیارے میں سوار کیا جائے گا۔
کاون کو رات9 بجے اسلام آباد ایئر پورٹ منتقل کیا جائے گا اور طیارہ صبح 5بجے اڑان بھرے گا،کاون کے ہمراہ ماہرغیرملکی ڈاکٹرز سمیت ٹیکنیکل اسٹاف بھی موجود ہوگا۔ کاون کی طیارے میں منتقلی کے وقت چڑیا گھر میں وائلڈ لائف مینجمنٹ سمیت رینجرز بھی موجود رہی۔
کاون کی منتقلی کے لیے ڈونرز نے خصوصی طیارہ ہائیر کیا ہے جو 29 نومبر یعنی آج اسلام آباد ایئرپورٹ سے کمبوڈیا روانہ ہو گا جبکہ کاون کے ہمراہ دو غیر ملکی ڈاکٹرز اور ٹیکنیل اسٹاف بھی ہوگا۔
1985ء میں مرغزار چڑیا گھر میں آیا سری لنکا سے پیارا سا تحفہ کاون ہاتھی 35 سال یہاں گزارنے کے بعد اب کمبوڈیا روانہ ہو رہا ہے جہاں وہ زندگی کے باقی ایام گزارے گا۔
بچوں کا دل بہلانے والے کاون نے اسلام آباد کے چڑیا گھر میں بہت مشکلات سہیں، کاون اپنی ساتھی ہتھنی کی موت کے بعد تنہائی کا شکار رہا، زنجیروں میں جکڑا گیا اور چڑیا گھر انتظامیہ کی لاپروائی کا شکار بھی رہا۔
کاون کے ساتھ زیادتی دیکھ کر امریکی پاپ گلوکارہ چیر اور رضاکاروں نے اس کی بہتر ماحول میں منتقلی کی مہم چلائی، سینیٹ نے بھی کاون کے ساتھ ناروا سلوک کا نوٹس لیا جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے کاون کی محفوظ مقام پر منتقلی کے احکامات جاری کیئے۔
کاون اپنی کٹھن زندگی کے باعث بہت خوفزدہ رہتا تھا، آسٹریا سے آئے ڈاکٹر امیر خلیل نے اس کا علاج کیا اور مختصر عرصے میں کاون کی زندگی میں خوش گوار تبدیلیاں لا کر اسے بیرونِ ملک منتقلی کے قابل بھی بنایا۔
کاون کی کمبوڈیا روانگی سے قبل الوداعی تقریب بھی منعقد کی گئی جس میں حکومتی شخصیات اور گلوکاروں نے بھی شرکت کی جبکہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی بھی اسے دیکھنے گئے۔
کاون کا سوانحی خاکہ
دنیا کا سب سے تنہا ہاتھی ’کاون‘ سری لنکا میں 1981 میں پیدا ہوا۔ وہ صرف چار سال کا تھا جب سری لنکا کی حکومت نے اسے پاکستان کے اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کی درخواست پر پاکستان کو تحفے میں دے دیا۔
کاون پاکستان آیا تو اسے اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر رکھا گیا جو کاون کا گھر بن گیا۔ کیونکہ کاون اسلام آباد کے چڑیا گھر کا پہلا اور واحد ہاتھی تھا تو لوگ اسے دور دور سے دیکھنے آتے اور بچے تو کاون پر چڑھ کر بڑے شوق سے تصویریں بناتے۔ یہاں تک کہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنے بچپن میں کاون کی سواری کی تھی۔
کاون سب ہی بچوں کا دوست تھا لیکن کاون کو بھی تو ایک دوست کی ضرورت تھی جو اس کے ساتھ رہے، کھائے پیے اور کھیلے کودے۔ لیکن پاکستان کے جنگلوں میں تو ہاتھی ہوتے ہی نہیں۔ تو کاون ہاتھی کا ساتھی لاتے بھی تو کہاں سے؟
لیکن پھر بالآخر کاون کو اس کی سہیلی مل گئی۔ سنہ 1991 میں بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم خالدہ ضیاء نے ایک ہتھنی پاکستان کی حکومت کو تحفے میں دی جسے ’سہیلی‘ کا نام دیا گیا۔ کاون کی طرح سہیلی بھی سری لنکا میں 1989 میں پیدا ہوئی اور وہاں اس کا نام مانیکا رکھا گیا تھا، لیکن جب وہ پاکستان آئی تو اس کا نام سہیلی رکھ دیا گیا۔
کاون کو اپنا ساتھی تو مل گیا لیکن اسے بھی کاون کی طرح زنجیروں میں باندھ دیا گیا اور کاون اور سہیلی دن رات بس انھی زنجیروں میں بندھے رہتے۔ کچھ عرصے بعد سہیلی کی طبعیت خراب ہونے لگی اور اس کے پاؤں میں تکلیف اتنی بڑھ گئی کہ 22 سال کی سہیلی سے کھڑا بھی نہیں ہوا جاتا تھا۔ اور پھر ایک دن سہیلی اس تکلیف کی وجہ سے دم توڑ گئی۔ جب کاون کی سہیلی ہلاک ہوئی تو تب بھی وہ اور کاون زنجیروں میں ہی بندھے تھے۔
سنہ 2012 میں سہیلی کے مر جانے کے بعد بے چارہ کاون ایک بار پھر اکیلا ہو گیا۔ زنجیروں میں جکڑا کاون اکیلے ہونے کی وجہ سے دن بدن ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا چلا گیا اور وہ ہر وقت یا تو پریشانی میں اپنا سر ایک سے دوسری جانب ہلاتا رہتا یا دیواروں اور درختوں سے سر ٹکراتا۔
کئی سال گزر گئے اور کاون اسی طرح اسلام آباد کے چڑیا گھر میں رہتا رہا۔ پریشان، تنہا، زنجیروں میں بندھا۔ یہ 2015 کی گرمیوں کی بات ہے جب ایک دن امریکہ سے چھٹیاں گزارنے پاکستان آئی ہوئی ثمر خان اور ان کی والدہ نے اسلام آباد کے چڑیا گھر کا رخ کیا۔ جب ثمر کاون کے پنجرے کے پاس پہنچی تو وہ کیا دیکھتی ہیں کہ کاون زنجیروں میں کھڑا ہے اور مسلسل بس اپنا سر دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ہلا رہا ہے۔ چونکہ ثمر اس وقت جانوروں کی ڈاکٹر بن رہی تھیں وہ فوراً سمجھ گئیں کہ کاون کی ذہنی صحت ٹھیک نہیں۔ انھوں نے ٹھان لی کہ وہ کاون کو وہاں سے آزاد کروا کر رہیں گی۔