وزیر ریلوے شیخ رشید کے دور میں وزارت ریلوے کی حالت بہتر نہ ہوسکی جدید سگنلزسسٹم بھی نہ لگ سکا
وزیر ریلوے شیخ رشید کے دور میں وزارت ریلوے کی حالت بہتر نہ ہوسکی جدید سگنلزسسٹم بھی نہ لگ سکا

شیخ رشید کے دور وزارت میں121 سے زائد ٹرین حادثات

سابق وزیرریلوے شیخ رشید کی وزارت کے دوران 121 سے زائد ٹرین حادثات ہوئے اور راولپنڈی ڈویژن میں ہونے والی محکمانہ بھرتیوں کے حوالے سے نیب انکوائری بھی کررہا ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیر ریلوے شیخ رشید کی وزارت کے دوران وزارت ریلوے کی حالت بہتر نہ ہوسکی جدید سگنلزسسٹم بھی نہ لگ سکا، ٹیکینکل الات کا فقدان اور لوگوں کی لاپروائی کی وجہ سے ریلوے میں ٹرین حادثات میں متعدد افراد جاں بحق، زخمی و معذور ہوئے جبکہ تخریب کاری کی وجہ سے بھی متعدد مقامات پر ریلوے ٹریک کو نشانہ بنایا گیا اور اس دوران 1 سو21 سے زائد ٹرین حادثے ہوئے.
سب سے زیادہ ٹرین حادثے ان مینڈ لیول کراسنگ کی وجہ سے ہوئے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ ریلوے کی جانب سے ٹرین حادثات کی رپورٹ بھی جاری کی گی ہے جس کے مطابق سابق وزیر ریلوے شیخ رشید کے دوران وزارت کے دوارن سب بڑا حادثہ گزشتہ سال30،اکتوبرکو چلتی ٹرین تیزگام میں آگ لگنے سے 75، افراد جاں بحق ہو گے تھے،حادثہ 15 اکتوبر کوکندھ کوٹ کے مقام پر ان مینڈ لیول کراسنگ پر خوشحال خاں خٹک ٹرین کو حادثہ پیش ہوا، ٹرین رکشہ سے ٹکر گی تھی جس کے نیتجے میں9 افراد جاں بحق ہوئے اور19 اکتوبر کو ہزارہ ایکسپریس ٹرین کے نیچے آکر تین افراد جاں بحق ہو گئے، 30 جنوری کو واربرٹن کے مقام پر ان مینڈ لیول کراسنگ پر مال بردار ٹرین رکشے سے ٹکرا گی تھی اس ٹرین حادثہ میں دو بچوں سمیت4افراد جاں بحق ہوئے.
گزشتہ سال 27 فروری کو رحیم یارخان ریلوے سٹیشن کے قریب مال بردار ٹرین کی 7 بوگیاں پیٹری سے اتر گئیں جس کی وجہ سے ریلوے لائن 48 گھنٹے تک بند رہی،ٹریک بند ہونے سے ریلوے کو ریونیو کی مد میں نقصان برداشت کرنا پڑا ، ٹرینیں تاخیر کا شکار ہونے سے متعدد مسافروں نے ٹکٹیں ہی ری فنڈ کروالی تھیں، گزشتہ سال21، مئی کو گرین لائن ٹرین لاہور واشنگ لائن کے مقام پر مال بردارٹرین سے ٹکرا گی اوراسی روز ہی راولپنڈی ڈویژن میں مال بردار ٹرین بھی پیٹری سے نیچے اتر گی،27مئی کو ریلوے ٹریک پردھماکہ کیا گیا، یکم جولائی کو وہاڑی کے مقام پر ان مینڈ لیول کراسنگ پر ٹرین کار سے ٹکرا گئی جس کے نیتجے میں4افراد جاں بحق ہوگے، 15 جولائی کو بوریوالہ کے مقام پر ٹرین رکشے سے ٹکرا گئی جس میں 3افراد جاں بحق ہوگے،4ستمبر کو سکھر کے مقام پرریلوے ٹریک کو تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا ،16 ستمبرکو پشاور ڈویڑن میں خوشحال خان خٹک ٹرین کو حادثہ پیش آیا ٹرین کی سات بوگیاں پیٹری سے نیچے اتر گئی اور اس حادثہ میں 22 مسافر زخمی ہوئے اور28ستمبر کو خوشحال خاں خٹک ٹرین ہی کو کراچی ڈویژن میں حادثہ پیش آیا جس کے نیتجہ میں ٹرین کی آٹھ بوگیاں پیٹری سے اتریں اور چند مسافر زخمی ہوئے.
19 اکتوبر کو ہزارہ ایکسپریس ٹرین کے نیچے آکرتین افراد جاں بحق ہوئے، 19 اکتوبرکومچھ کے مقام پر ریلوے ٹریک پر دھماکے کئے گئےجس کے نیتجہ میں جعفر ایکسپریس حادثہ سے بال بال بچ گئی اور18دسمبر کو نارروال کے قریب مسافر ٹرین سکول وین سے ٹکرا گئی جس کے نیتجہ میں سات بچے زخمی ہوئے اور ریلوے حکام کی جانب سے ٹرین حادثات کی متعدد انکواریاں ابھی تک زیرالتواءہیں جن کو نمٹایا نہیں جا سکا ہے اس کے ساتھ ساتھ محکمہ نیب کی جانب سے راولپنڈی ڈویژن میں گریڈ1سے گریڈ5تک بھرتی کے معاملہ کے حوالے سے انکوائری شروع کی ہوئی ہے اور وزارت ریلوے حکام سے بھرتیوں کے حوالے سے مکمل بائیو ڈیٹا بھی مانگا ہوا ہے۔