کرفیو آج اوریکم جنوری کو رات 11 تا صبح 6 تک بجے نافذ رہےگا۔فائل فوٹو
کرفیو آج اوریکم جنوری کو رات 11 تا صبح 6 تک بجے نافذ رہےگا۔فائل فوٹو

سکھ پولیس اہلکاروں کا کسانوں کیخلاف کریک ڈائون سے انکار

امت رپورٹ
بات چیت کا دور ناکام ہونے کے بعد بھارتی کسانوں کی جانب سے تحریک مزید تیز کرنے کے اعلان نے جہاں مودی سرکار کو حواس باختہ کردیا ہے، وہیں دہلی انتظامیہ کو ایک نئی پریشانی کا سامنا ہے۔

بھارتی دارالحکومت میں موجود صحافتی ذرائع نے بتایا کہ دہلی پولیس کمشنر ایس این شری واستو نے وزارت داخلہ کو ایک رپورٹ بھیجی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دہلی پولیس کی 90 ہزار سے زائد فورس میں شامل سکھ اہلکاروں کی اکثریت کسانوں کی ہمدرد ہے اور یہ کہ اگر کسانوں کے خلاف کریک ڈائون کا فیصلہ کیا گیا تو یہ سکھ اہلکار جن میں ڈپٹی کمشنر پولیس اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سے لے کر انسپکٹر اور کانسٹیبلز شامل ہیں اس کارروائی میں حصہ لینے سے ممکنہ طور پر انکار کردیں گے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ رپورٹ پولیس کے اندرونی انٹیلی جنس نیٹ ورک کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی ہے، لہٰذا دہلی کے بارڈرز پر موجود سکھوں کے خلاف جب بھی کریک ڈائون کا فیصلہ کیا جاتا ہے، وہاں سکھ پولیس اہلکاروں کو بھیجنے سے گریز کیا جائے۔

صحافتی ذرائع کے مطابق دو ہزار پندرہ کے اعدادو شمار کے مطابق دہلی پولیس کے اہلکاروں کی تعداد پچاسی ہزار پانچ سو کے قریب تھی، جو اب بڑھ کر نوے سے پچانوے ہزار ہوچکی ہے۔ اس میں سکھ پولیس افسروں اور اہلکاروں کی تعداد بیس فیصد کے قریب ہے۔ بیشتر سکھ پولیس اہلکاروں کی جانب سے ناصرف کسانوں سے اظہار یکجہتی کیا جارہا ہے بلکہ وہ شدید سردی میں بیٹھے ان مظاہرین کے لئے گرم کپڑوں اور کھانے کا انتظام بھی کر رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اس صورتحال میں دہلی کو ہریانہ اور اترپردیش سے جوڑنے والے سات بارڈرز کنڈلی، سنگھو، ٹکری ، اچنڈی، لالمپور، پیائو مانیاری اور جھارڈا پر تعینات پولیس فورس میں سکھ اہلکاروں کو برائے نام رکھا گیا ہے۔

ہفتے کے روز کسانوں نے مختلف ٹول پلازائوں پر قبضہ کرکے وہاں ٹیکس دیئے بغیر گاڑیوں کو گزرنے دیا۔ اسی طرح دہلی ، اترپردیش کو ملانے والے چلہ بارڈر کو بلاک کردیا گیا تھا۔ تاہم کسان رہنمائوں اور مقامی انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کے بعد شام کے وقت بارڈر ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔ کسانوں نے آج اتوار کے روز بھی مختلف شاہراہیں بلاک کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر ٹریکٹر ریلیاں نکالی جائیں گی۔ اس سے نمٹنے کے لئے انتظامیہ نے دہلی سے ملنے والی سرحد پر ایک ہزار سے زائد اور فرید آباد میں ساڑھے تین ہزار پولیس اہکار تعینات کئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان اہلکاروں میں بھی اکثریت ہندو پولیس افسروں اور کانسٹیبلز کی ہے۔

ہفتے کے روز دہلی سے آگرہ جانے والی مرکزی ہائی وے بند کرنے کی کوشش کے دوران پولیس اور کسانوں میں مڈبھیڑ بھی ہوئی۔ کسانوں نے اپنے احتجاج کو مزید تیز کرنے کے لئے پیر کے روز ملک بھر میں مظاہروں کا اعلان بھی کیا ہے۔ ان مظاہروں کے دوران حکمراں پارٹی بی جے پی کے رہنمائوں اور وزرا کا گھیرائو کیا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بالخصوص پیر کے روز کسانوں اور پولیس میں تصادم کا خطرہ ہے۔ کیونکہ وزارت داخلہ نے مختلف ریاستوں کی مقامی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ ہر صورت سیاسی رہنمائوں اور وزرا کی حفاظت کرے  جبکہ کسان رہنمائوں نے مظاہرین کو کہا ہے کہ اگر بی جے پی رہنما اور وزرا باہر نہیں ملتے تو ان کے گھروں کا گھیرائو کیا جائے۔

کسانوں نے بھارتی میڈیا ٹائیکون مکیش امبانی گروپ کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا بھی اعلان کیا ہے  جس پر پیر سے عمل شروع کیا جائے گا۔ امبانی کا ریلائنس اور جیو (JIO)گروپ آئی ٹی، کیمیکلز ، پیٹرولیم اور ٹیکسٹائل مصنوعات کے حوالے سے ایک بڑا نام ہے۔ جس میں امبانی گروپ نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ جیو پلیٹ فارم لمیٹڈ نامی ٹیکنالوجی کمپنی ریلائنس انڈسٹریز لمیٹڈ کی ماتحت ہے، جو بھارت کے سب سے بڑے موبائل نیٹ ورک اور دوسرے ڈیجیٹل کاروباروں کی مالک ہے۔

رواں برس اپریل میں ریلائنس انڈسٹریز نے جیو پلیٹ فارم کے بتیس اعشاریہ ستانوے فیصد ایکویٹی حصص فروخت کرکے اکیس ارب امریکی ڈالر کمائے تھے۔ امبانی گروپ کی ٹیکسٹائل انڈسٹری مردو خواتین کے معروف برانڈزکپڑے اور تیار ملبوسات بھی فروخت کرتی ہے۔ اسی طرح ریلائنس گروپ کے سپراسٹورز اور کیش اینڈ کیری اسٹورز بھی ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ب

ھارتی معیشت داں بھاسکر کے مطابق ملک کے بیس کروڑ سے زائد کسان گھرانے اگر امبانی گروپ کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو اسے اربوں روپے ماہانہ کا نقصان ہوگا۔ دوسری جانب احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکلنے والے کسان اب سپریم کورٹ بھی پہنچ گئے ہیں۔ بھارتی کسان یونین نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے ۔ درخواست میں ملک کی سب سے بڑی عدالت کو اس معاملے میں مداخلت کی اپیل کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ میں چھ درخواستیں پہلے ہی داخل ہیں۔ اکتوبر میں ان درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مودی سرکار کو نوٹس جاری کیا تھا۔ اب اس نوعیت کی تمام درخواستوں کی سماعت رواں ماہ دسمبر میں ہوگی۔
ادھر کسانوں کی تحریک میں ایک نیا موڑ یہ آیا ہے کہ بھارت کے معروف مزدور رہنما انّا ہزارے نے بھی نئے زرعی قوانین کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ انّا ہزارے نے مودی سرکار کے خلاف تحریک چلانے والے کسانوں کی حمایت میں بڑا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسانوں کے مطالبات پورے نہیں کئے گئے تو وہ ان کی حمایت میں دوہزار گیارہ جیسی ایک اور بڑی تحریک شروع کردیں گے۔

واضح رہے کہ تراسی سالہ انّا ہزارہ نے دوہزار گیارہ میں کرپشن کے خلاف ایک بڑی تحریک چلائی تھی۔ کسان رہنما کمال پریت سنگھ پنو کے مطابق کسان تحریک کا دائرہ اور حجم وسیع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں متنازعہ شہریت قانون کے خلاف گزشتہ برس شاہین باغ میں طویل ترین دھرنا دینے والی خواتین سوشل ایکٹیوٹسٹ اور دہلی کی مشہور تعلیمی درسگاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طلبا تنظیموں سے رابطے کیے جارہے ہیں۔ جلد ان خواتین سماجی رہنمائوں اور طلبا رہنمائوں کو کسانوں کے شانہ بشانہ دیکھا جاسکے گا۔

دہلی میں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ رپورٹر نوین کمار کا کہنا ہے کہ اگرچہ مودی سرکار پر دبائو بڑھتا جارہا ہے اور کسانوں کی تحریک تیکھی ہوجانے سے سرکار کے ہاتھ پیر پھول چکے ہیں، لیکن وزیراعظم مودی کی پریشانی یہ ہے کہ اگر وہ ان تینوں زرعی قوانین کو واپس لیتے ہیں، تو پھر انہیں متنازع شہریت قانون اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے متعلق فیصلے بھی واپس لینے پڑیں گے کیونکہ کسانوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے نتیجے میں متنازعہ شہریت قانون کے خلاف شاہین باغ تحریک اورکشمیر کو مرکز سے ضم کرنے کے خلاف احتجاج دوبارہ شروع ہوسکتا ہے۔