قرآن کریم کی تعلیم غازی عبدالرشید شہیدؒ کی اہلیہ سے حاصل کی- رپورٹ-فائل فوٹو
 قرآن کریم کی تعلیم غازی عبدالرشید شہیدؒ کی اہلیہ سے حاصل کی- رپورٹ-فائل فوٹو

رانی خان کے مدرسہ میں 30 خواجہ سرا زیر تعلیم

رپورٹ:عظمت خان
اسلام آباد میں خواجہ سرا نے اپنی کمیونٹی کے لئے دینی مکتب قائم کر لیا ہے۔ جہاں تین ماہ میں 30 کے لگ بھگ خواجہ سرا داخل ہو چکے ہیں اور قرآن کریم کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ رانی خان نے ناظرہ کی تعلیم مولانا الیاس چنیوٹی کے شاگرد قاری مطلوب الرحمن سے بعد ازاں قرآن کریم کی تعلیم غازی عبدالرشید شہید ؒ کی اہلیہ سے حاصل کی تھی۔ شروع میں خواجہ سرائوں کے لئے خلوص خلق فائونڈیشن کے تحت فلاحی سرگرمیاں کیں اور اب مکتب قائم کیا ہے۔
گزشتہ دنوں بنگلہ دیش میں خواجہ سرائوں کے لیے پہلے مدرسہ کھولا گیا۔ خواجہ سرائوں کے اس خصوصی مدرسے کو بنگلادیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے مضافات میں عبدالرحمن آزاد کی سربراہی میں علما کے ایک گروپ نے مقامی چیریٹی کی مدد سے قائم کیا۔ جبکہ اس مدرسے کا نام دعوت الاسلام ٹریٹیولِنگر یا اسلامک تھرڈ جینڈر اسکول رکھا گیا۔ جب اس مدرسے کا افتتاح کیا گیا تو 50 سے زائد خواجہ سرائوں نے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔
ادھر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بھی خواجہ سراؤں کیلئے دینی مدرسے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ خواجہ سرا رانی خان کے اس مدرسہ میں گزشتہ روز ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے بھی دورہ کیا۔

اس موقع پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لئے اسلام آباد انتظامیہ کے دفتر میں ملازمت کا اعلان بھی کیا۔ حمزہ شفقات نے خواجہ سراؤں میں ’درِانسانیت‘ این جی او کے تعاون سے کمبل اور رضائیاں بھی تقسیم کیں۔ حمزہ شفقات نے اس مکتب کو اہم ضرورت قرار دیا۔

’’امت‘‘ نے مکتب چلانے والی رانی خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’’میں نے اسلام آباد میں ایف الیون ون میں مدرسہ قائم کیا ہے۔ یہ مدرسہ تین ماہ قبل میں نے گھر میں شروع کیا تھا۔ میرا گھر کرائے کا ہے۔ جہاں میں یہ مکتب چلا رہی ہوں۔ اس کا کرایہ دس ہزار روپے ہے۔ جب میں نے یہ مدرسہ شروع کیا تھا تو اس وقت صرف دو خواجہ سرا طالبات تھیں۔ اب الحمد للہ یہ تعداد30 تک پہنچ چکی ہے۔ آنے والے وقت میں اس تعداد میں مزید اضافے کے امکانات ہیں‘‘۔

ایک سوال پر رانی خان کا کہنا تھا کہ ’’میں نے خواجہ سرائوں کے گھروں پر جاکر ان کو دین کا پیغام دیا۔ تب جا کر طالبات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ چونکہ خواجہ سرائوں کو گھروں پر جا کر ہی راغب اور راضی کیا جاسکتا ہے۔ لہذا میں نے ان کے گھروں پر جا کر انہیں کہا کہ وہ اس جانب آئیں۔ اس کے لئے کسی کو راشن ڈلوایا تاکہ وہ گھر میں کسی تکلیف کا ذکر نہ کریں۔ کئی خواجہ سرائوں کے گھروں کے کرایے کا ذمہ لیا ہے۔ میں اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات سے ملی ہوں اور میں نے اپنی ’’خلوصِ خلق فائونڈیشن‘‘ کی جانب سے پولیس کو متعدد درخواستیں دے کر ایسے ٹھکانوں کو بند کرایا ہے جہاں خواجہ سرائوں کو غیر شرعی افعال کی جانب راغب کیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے بڑا تعاون کیا ہے‘‘۔

ایک اور سوال پر رانی خان نے کہا کہ ’’میں نے لگ بھگ 20 برس ڈانس کیا ہے۔ میں نے اپنا مکان بنایا ہے اور فیصل آباد میں تین پلاٹ لئے تھے۔ جن میں سے ایک پلاٹ میں نے سات لاکھ روپے میں فروخت کرکے فائونڈیشن کیلیے خرچ کیا۔ دو پلاٹ اب بھی فیصل آباد میں موجود ہیں‘‘۔

رانی خان نے مزید بتایا کہ ’’میرا تعلق پشتون قبیلے خٹک سے ہے۔ ہمارا بچپن کوہاٹ میں گزرا ہے۔ جس کے بعد ہم چنیوٹ چلے گئے تھے۔ جہاں میں نے ابتدائی ناظرہ کی تعلیم ماں سے پڑھی۔ اس کے بعد میں نے مولانا منظور احمد چنیوٹی کے شاگرد مولانا الیاس چنیوٹی کے شاگرد قاری مطلوب الرحمن سے جامعہ مسجد بخاری نزد ریلوے اسٹیشن، محلہ رشید آباد میں قرآن کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد میں اسلام آباد آئی اور یہاں پر میں نے لال مسجد جانا شروع کیا۔ اس وقت میں نے غازی عبدالرشیدؒ کی اہلیہ باجی ریحانہ سے تعلیم حاصل کی۔ میں ان کے پاس جایا آیا کرتی تھی۔ میں اس کے بعد ہر رمضان میں چھ سے سات بار قرآن کریم تلاوت کرتی ہوں‘‘۔

ایک اور سوال پر رانی خان کا کہنا تھا کہ ’’میں اس جانب اس طرح آئی کہ چند برس قبل میں اسلام آباد ناظم الدین روڈ جو پمز کو جاتا ہے، پر جا رہی تھی۔ اس دوران میں نے گاڑی کے سائیڈ شیشے سے پیچھے دیکھا تو ایک خواجہ سرا کافی تکلیف کی حالت میں آرہا تھا۔ لگ بھگ وہ دو کلو میٹرتک کا سفر پیدل طے کرکے آیا تھا۔ وہ تکلیف سے کبھی اٹھ رہا تھا کبھی بیٹھ رہا تھا۔ جب میں اسے ملی تو وہ بخارکی حالت میں تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ میں ایڈز کی مریضہ ہوں اورکمپلیکس میں جانا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ کیا آپ کے پاس کوئی اور خواجہ سرا نہیں رہتا جو اکیلی آرہی ہو۔ تو اس نے کہا کہ جب میں بیمار ہوئی تو ان لوگوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ یہ سن کو مجھے بہت دکھ ہوا کہ جب یہ کمانے والی تھی تو اس کے پاس وہ رہتے تھے۔ اب یہ اکیلی رہتی ہے۔ اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اب زندگی میں کچھ کرنا ہے۔

میں نے عزم کیا کہ جب ایک روز مر ہی جانا ہے تو عمر کے اس حصے میں کیوں نہ اللہ تعالیٰ کو منا لوں۔ میں نے پہلے پہلے خواجہ سرائوں کے حقوق کے لیے کام کیا تھا۔ اس کے بعد میں نے مانگنے والوں کو اس کام سے دور کیا۔ کیونکہ خواجہ سرا جب گھر چھوڑ کر آتے ہیں تو دین کی طرف نہیں آتے۔ وہ کمانے کے لئے لگ جاتے ہیں۔ اس لیے میری سوچ تھی کہ کم از کم ان کو قرآن کے قریب کیا جائے اور اس کے بعد اگلے مرحلے میں ان کو مزید تعلیم دلوانی ہے۔ میں ان خواجہ سرا طالبات کو قرآن مجید پڑھائوں گی۔ ان کی عمریں اب بیس سے تیس برس تک ہو چکی ہیں۔ دنیاوی تعلیم میں ان کو میں نے بیوٹیشن کورس، ٹیلرنگ سکھانی ہے۔

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ان کو مزید پڑھانے کا سلسلہ شروع کرانا ہے۔ ان کو نوکریاں بھی دلوانی ہیں۔ مگر یہ لوگ نوکری کرنا ہی نہیں چاہتے۔ اس لیے ان کی ذہن سازی کرنی ہے کہ مانگنے سے بہتر ہے نوکری کرلی جائے۔ ڈپٹی کمشنر نے اپنی اسسٹنٹ کمشنر کو حکم دیا ہے کہ وہ اس حوالے سے کا م شروع کریں‘‘۔