نمائندہ امت
پی ڈی ایم نے مینار پاکستان میں کامیاب اورمتاثرکن جلسہ منعقد کرکے حکومت کیخلاف تحریک کا پہلا مرحلہ مکمل کرلیا۔
جلسہ پُرامن انداز میں منعقد ہو کراختتام کو پہنچا۔ حکومت کی طرف سے حسب وعدہ کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ فیصل آباد سے آنے والے لیگی قافلے کے ساتھ پولیس کی ہلکی پھلکی جھڑپ کے سوا کوئی ناخوشگوار واقعہ یا بدمزگی پیدا نہیں ہوئی۔ جلسے کے شرکا کی 80 فیصد تعداد لاہوراورگرد و نواح کے لوگوں پر مشتمل تھی۔ جن میں غالب اکثریت نواز لیگ کے کارکنوں کی تھی۔ دیگر شہروں سے قافلے صبح سویرے ہی جلسہ گاہ پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔ جبکہ لاہورکے عوام کی اکثریت سہ پہر تین بجے کے بعد آنا شروع ہوئی۔ پی ڈی ایم کے مرکزی قائدین 4 بجے کے بعد جلسہ گاہ پہنچے۔
اسلام آباد، راولپنڈی سے سابق رکن قومی اسمبلی ملک ابرار خان، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، سجاد خان اور دیگر رہنمائوں کی قیادت میں لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد موٹروے کے ذریعے لاہور پہنچی۔ مسلم لیگ ن اسلام آباد کے رہنما عبدالصبور طارق نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جڑواں شہروں سے آنے والے قافلے میں راستے سے جہلم، گجرات اور گرد و نواح سے بھی گروپوں کی شکل میں لوگ شامل ہوتے گئے اور لاہور پہنچنے تک ان کے قافلے میں مزید 5 سو گاڑیاں شامل ہو چکی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ راستے میں انہیں کسی قسم کی رکاوٹ یا مشکل کا سامنا نہیں ہوا۔ ٹریفک جام ہونے پر کارکن، گاڑیوں سے اتر کر جلوس کی شکل میں پیدل چلتے اور نعرے بازی کرتے رہے۔
خیبر پختونخوا سے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کا سب سے بڑا قافلہ صوبائی صدر امیر مقام کی سربراہی میں لاہور پہنچا جو دو سو سے زائد گاڑیوں پر مشتمل تھا۔ ذرائع کے مطابق خیبر پختون سے کارکنوں کی بڑی تعداد ایک روز پہلے ہی لاہور پہنچ چکی تھی۔ امیر مقام کے ساتھ آنے والے قافلے میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ جو پرجوش انداز میں نعرے لگا رہی تھیں۔ یہ قافلہ موٹروے کے راستے لاہور روانہ ہوا۔ علاوہ ازیں مردان، صوابی، مالاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن سے بھی لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد لاہور پہنچی۔
ہزارہ ڈویژن جو طویل عرصے تک مسلم لیگ (ن) کا سیاسی گڑھ رہا ہے، وہاں کے سرکردہ رہنمائوں سردار امتیاز عباسی اور مرتضیٰ جاوید عباسی کے درمیان شدید اختلاف کے باعث جلسے کے حوالے سے کوئی مربوط حکمت عملی نہیں بنائی جا سکی تاہم کارکن، مقامی رہنمائوں اور عہدیداروں کے ہمراہ اپنے طور پرلاہور پہنچے۔
ملتان، فیصل آباد، سیالکوٹ، نارووال، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، گجرات، وزیر آباد، لالہ موسیٰ، جہلم، چکوال، اٹک سمیت پنجاب کے مختلف شہروں سے لیگی کارکنوں کے قافلے مقامی و ضلعی عہدیداروں اور ارکان اسمبلی کی قیادت میں جوق در جوق جلسہ گاہ پہنچتے رہے۔ کارکن راستے میں نعرے بازی کے ساتھ بھنگڑے بھی ڈالتے رہے۔ راستے میں جی ٹی روڈ پر جگہ جگہ قافلوں کیلئے ناشتے کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ مقامی لیگی عہدیداروں اور صاحب ثروت رہنمائوں نے مرغ چھولے، نان اور چائے کی دیگیں رکھ کر کارکنوں کی تواضع کی۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری تقریباً ایک ہفتے سے لاہور میں مقیم ہیں، جہاں سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، سابق چیئرمین سینیٹ، نیر بخاری، قمر زمان کائرہ سمیت دیگر اہم رہنما بھی موجود تھے۔ پی پی جنوبی پنجاب کے کارکنوں کو بلاول ہائوس بلایا گیا تھا۔ جبکہ دیگر کو براہ راست جلسہ گاہ پہنچنے کی ہدایت تھی۔ بلاول بھٹو دوپہر ایک بجے سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے گھر گلبرگ پہنچے، جہاں پی ڈی ایم قیادت کے اعزاز میں ظہرانہ رکھا گیا تھا۔
مریم نواز جاتی امرا سے جبکہ مولانا فضل الرحمن ایک نجی ہوٹل سے ایاز صادق کی رہائش گاہ پہنچے جہاں سے یہ تمام رہنما جلوس کی شکل میں مینار پاکستان آزادی گرائونڈ گئے۔ ایاز صادق کے گھر کھانے کے ساتھ مشاورتی اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں تحریک کے آئندہ لائحہ عمل پر گفتگو سمیت اہم فیصلے کئے گئے۔ بزرگ رہنما مخدوم جاوید ہاشمی، رانا ثنا اللہ، سعد رفیق، مریم اورنگزیب، اویس لغاری، مولانا عبدالغفور حیدری اور دیگر کئی سیاسی قائدین اور ارکان اسمبلی پہلے سے جلسہ گاہ میں موجود تھے۔
اسٹیج کی سیکیورٹی جے یو آئی (ف) کے رضا کاروں نے سنبھال رکھی تھی جو فہرست میں درج نام چیک کرکے رہنمائوں کو اسٹیج پر جانے کی اجازت دے رہے تھے۔ جبکہ چند مسلم لیگی کارکن بھی ان کی معاونت کر رہے تھے۔ اویس لغاری اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی آمد پر کچھ دیر کیلیے بد مزگی بھی پیدا ہوئی، تاہم بعدازاں اسٹیج پر جانے کی اجازت مل گئی۔
پی ڈی ایم کے دیگر رہنما اے این پی کے میاں افتخار حسین، آفتاب شیر پائو، اختر مینگل، محمود خان اچکزئی اور ڈاکٹر مالک بلوچ اپنے، اپنے وفد کے ساتھ جلسے میں شریک ہوئے۔
جلسے کیلیے انتظامیہ کی جانب سے سیکورٹی انتظامات سخت تھے۔ 4 ہزار پولیس اہلکار اور افسران کو جلسے کی سیکورٹی پر مامور کیا گیا تھا، جن میں سے ایک ہزار کے قریب اہلکار جلسہ گاہ پر، جبکہ دیگر آس پاس شاہراہوں اور داخلی و خارجی راستوں پر ڈیوٹی دے رہے تھے۔ مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن سمیت پی ڈی ایم کے دیگر رہنمائوں کو پنڈال تک پہنچانے کیلیے بھی فول پروف سیکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔
جلسہ گاہ کے داخلی اور خارجی راستوں پر20 واک تھرو گیٹس نصب کیے گئے تھے۔ جہاں میٹل ڈی ٹیکٹر کے ذریعے چیکنگ کے بعد لوگوں کو چھوڑا جا رہا تھا۔ ضلعی انتظامیہ نے اتوار کے روز پی ڈی ایم جلسے کے پلان میں رد و بدل کیا جس کے تحت گیٹ نمبر ایک عوام کیلیے، دو اور تین وی آئی پیز کیلیے جبکہ گیٹ نمبر 4 اور 5 خواتین کیلئے مختص کئے گئے۔ سیکورٹی مانیٹرنگ کیلیے مینار پاکستان کے 6 سو میٹر ریڈیس کو فوکس کرنے والے ڈیرھ سو کیمرے نصب کئے گئے تھے۔ جبکہ جلسے کی مانیٹرنگ ڈرون سے بھی کی جا رہی تھی۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق اسٹیج اور پنڈال کے اطراف میں 44 کیمرے نصب تھے، جبکہ پارکنگ اور گیٹس پر56 کیمرے لگائے گئے تھے۔ مینار پاکستان کے اطراف میں بھی50 کیمرے نصب تھے۔ سیف سٹی اور ضلعی انتظامیہ نے کنٹرول روم سے لمحہ بہ لمحہ مانیٹرنگ کا انتظام کر رکھا تھا۔
مینار پاکستان جلسے کے پیش نظر میٹرو بس جزوی طور پر چند گھنٹے کیلئے معطل کر دی گئی تھی، جبکہ ٹرینوں کے اوقات کار بھی تبدیل کر دیئے گئے۔ لاہور سے کراچی جانے والی قراقرم اور بزنس ایکسپریس ایک ایک گھنٹہ تاخیر سے جبکہ کراچی ایکسپریس دو گھنٹے تاخیر سے رات ساڑھے سات بجے روانہ کی گئی۔
پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے کارکن ہفتے کی رات سے ہی جلسہ گاہ میں آمد ورفت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ جبکہ ہفتے کو رات گئے مریم نواز کے علاوہ مولانا فضل الرحمان، خواجہ سعد رفیق اور دیگر رہنمائوں نے بھی جلسہ گاہ کا دورہ کیا اور انتظامات کا جائزہ لیا۔
واضح رہے کہ لاہور گزشتہ تین روز سے شدید سردی اور دھند کی لپیٹ میں تھا۔ دھند کی وجہ سے اتوار کوعلی الصبح اور ہفتے کو رات گئے کئی مقامات پر موٹروے کو عارضی طور پر بند کیا گیا تھا۔ تاہم شدید سردی کے باوجود کارکنوں کا جوش و جذبہ برقرار رہا۔ جلسہ گاہ میں جگہ جگہ کھانے پینے کی اشیا کے اسٹالز لگے تھے جن پر خشک میوہ جات، باربی کیو، دہی بڑے، چنے، چائے قہوہ، انڈے وغیرہ دستیاب تھے۔
’’امت‘‘ نے ایک سینئر لیگی رہنما سے جلسے کے شرکا کی تعداد کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ دعویٰ تو ہم لاکھوں کا کر سکتے ہیں لیکن اگر غیر جانبدارانہ انداز سے جائزہ لیا جائے تو بھی محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد لوگ جلسے میں شریک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹیج کے سامنے والے حصے میں تو کرسیاں تقریباً جوڑ کر رکھی گئی ہیں۔ تاہم پانچ چھ قطاروں کے بعد پچھلے حصے میں کرسیوں کے درمیان تین سے چار فٹ کا فاصلہ رکھا گیا ہے، جن کے درمیان لوگ آسانی سے موو کر رہے ہیں۔ جلسہ گاہ میں رکھی کرسیوں کی تعداد تقریباً 25 ہزار تھی جو سب پُر تھیں۔ جبکہ اس سے تقریباً ڈھائی سے تین گنا تعداد میں لوگ کھڑے تھے۔
اسی طرح جلسہ گاہ کے اطراف میں بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ ان میں سے کچھ کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری تھا۔ غیر جانبدار مبصرین کے مطابق پی ڈی ایم قیادت مینار پاکستان کا احاطہ بھرنے کا تاثر دینے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ جلسہ بڑا کامیاب اور متاثر کن تھا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب مریم نواز نے اپنے خطاب کے اختتام پراعلان کیا کہ ان کے بعد بلاول بھٹو پھر مولانا فضل الرحمان اور آخر میں میاں نواز شریف خطاب کریں گے، تو پنڈال کا ایک بڑا حصہ مریم نواز کے خطاب کے بعد خالی ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف کا خطاب آخر میں رکھنے کا فیصلہ گوجرانوالہ کے تلخ تجربے کے بعد کیا گیا تھا جس میں مولانا فضل الرحمن کا خطاب آخر میں رکھا گیا تھا۔ تاہم میاں نواز شریف کی تقریر ختم ہوتے ہی پنڈال تقریباً خالی ہو گیا، جس سے خاصی بد مزگی پیدا ہوئی تھی۔ کیونکہ گوجرانوالہ میں بھی مسلم لیگ (ن) ہی میزبان تھی۔ اس ایشو پر تحریک انصاف نے اچھا خاصا پراپیگنڈا بھی کیا تھا۔ تاہم مولانا فضل الرحمن نے تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا اورکوئی گلہ شکوہ نہیں کیا۔
ایک لیگی رہنما نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ مریم نواز کے خطاب کے بعد جلسہ گاہ سے جانے والوں کی بڑی تعداد دور دراز کے شہروں سے آنے والے عوام کی تھی جو شدید سردی اور دھند کے خدشے کے باعث طویل سفر کیلئے روانہ ہوگئے۔ یہ لوگ صبح سے یا ایک دن پہلے سے لاہور پہنچ چکے تھے۔ اجتماع کے شرکا کی غالب اکثریت تو لاہور ہی سے تعلق رکھتی تھی جو مقامی رہنمائوں اور عہدیداروں کی قیادت میں ریلیوں کی شکل میں جلسہ گاہ پہنچے تھے۔ شرکاء میں 70 فیصد تعداد لیگی کارکنوں کی تھی جو پارٹی پرچموں کے ساتھ جوش و خروش بھی دکھا رہے تھے۔ دوسرے نمبر پر جے یو آئی کے کارکن تھے، جو بڑی تعداد میں پارٹی پرچموں کے ساتھ موجود تھے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے کارکن تعداد میں بہت کم تھے، مگر جھنڈوں اور نعروں کے ساتھ اس کمی کو پورا کر رہے تھے۔ مجموعی طور پر یہ شو مسلم لیگ ن کا تھا جو خاصی حد تک متاثر کن رہا۔
مولانا فضل الرحمن نے اجتماع کو انتہائی کامیاب قرار دیتے ہوئے لاہور کے شہریوں کوسلام پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 1940ء کی قرارداد پاکستان کے بعد یہ اہم ترین اجتماع ہے۔ مینار پاکستان کا احاطہ بھرا ہوا ہے، جبکہ لاہور کی شاہراہوں پر بھی انسانوں کا سمندر موجزن ہے۔