امت رپورٹ:
سندھ حکومت نے برطرف اسٹیل مل ملازمین کو جھنڈی دکھادی جس کے بعد اسٹیل ملز ملازمین نے دوبارہ احتجاج کی تیاری کرلی ہے جس کا آغاز آج بدھ سے کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں اسٹیل ملز کے ملازمین نے بن قاسم ریلوے اسٹیشن کے قریب کراچی کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والی اہم ریلوے لائن کو بلاک کردیا تھا اس کے نتیجے میں بارہ گھنٹے تک ٹرین سروس معطل رہی تھی تاہم سندھ کے وزیر تعلیم و محنت سعید غنی نے مظاہرین سے مذاکرات کرکے انہیں احتجاج ختم کرنے پر راضی کیا تھا۔
صوبائی وزیر نے مظاہرین کو یقین دہانی کرائی تھی کہ سندھ حکومت ان کے مطالبات تسلیم کرانے کے لیے پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت سے رابطہ کرے گی۔ تاہم ذرائع نے بتایا کہ دو ہفتے گزر جانے کے بعد بھی سندھ حکومت کی طرف سے کرائی جانے والی یقین دہانیوں پر عمل نہیں ہوا ہے۔ وفاق سے رابطہ کرنا تو دور کی بات ہے۔ سندھ حکومت کے نمائندے اس حوالے سے اسٹیل ملز یونین رہنمائوں سے ملاقات کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔
ذرائع کے بقول اسٹیل ملز ملازمین کی برطرفیوں کا معاملہ حل کرنے کے لئے سندھ حکومت نے صوبائی وزرا پر مشتمل جو کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس کمیٹی نے چودہ پندرہ دن گزر جانے کے باوجود اسٹیل ملز کے مزدور رہنمائوں کے ساتھ ایک ملاقات بھی نہیں کی۔ اسٹیل ملز آفیسرز ایسوسی ایشن کے ایک رکن کے بقول صاف نظر آرہا ہے کہ سندھ حکومت نے ٹائم پاس کرنے کے لیے کمیٹی بنانی اور اسٹیل ملز ملازمین سے مسائل حل کرانے کا وعدہ کیا تھا۔
سندھ حکومت کی پہلی ترجیح یہ تھی کہ ریلوے ٹریک پر دھرنا دینے والے ملازمین کو وہاں سے اٹھایا جائے کیونکہ اس حوالے سے صوبائی حکومت پر اوپر سے بہت زیادہ دبائو تھا۔ اور یہ ایسا دبائو تھا، سندھ حکومت جس کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں چنانچہ صوبائی وزیر نے پہلے جھوٹی تسلیاں اور وعدے کرکے مظاہرین سے ریلوے ٹریک خالی کرایا اور بعد میں کمیٹی کا لالی پاپ دے دیا۔ اس صورتحال پر مایوس ہوکر بالآخر اسٹیل ملز ملازمین نے اپنا احتجاج دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مذکورہ افسر کے بقول ملازمین کو یہ پہلے ہی اندازہ تھا کہ سندھ حکومت انہیں محض لالی پاپ دے رہی ہے۔ کیونکہ وہ مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ جو وفاقی حکومت اس کے ساتھ کورونا سے بچائو کی مشترکہ کوششیں کرنے پر تیار نہیں۔ وہ وفاقی حکومت اسٹیل مل کے حوالے سے سندھ حکومت کے ساتھ کیا تعاون کرے گی۔
سندھ حکومت اگر واقعی اسٹیل مل کو بچانے اور اس کے ملازمین کی مدد کرنے میں سنجیدہ ہوتی تو اس کے پاس صرف ایک آپشن ہے۔ وہ وفاقی حکومت سے یہ کہہ سکتی ہے کہ اسٹیل ملز کو بند کرنے یا اس کی نجکاری کے بجائے اس کے حوالے کردے۔ یہ ایسا ٹھوس پوائنٹ ہے۔ جس کی سپریم کورٹ بھی مخالفت نہیں کرے گی۔ چونکہ سندھ حکومت سنجیدہ نہیں۔ لہٰذا اس نے اسٹیل مل کی حوالگی سے متعلق قابل عمل آپشن اختیار کرنے کے بجائے کمیٹی بنانے اور وفاقی حکومت کو لیٹر لکھنے جیسے بے ثمر عمل کی یقین دہانی کراکے ملازمین کو رام کرنے کی کوشش کی۔
اسٹیل ملز ملازمین کے احتجاج سے متعلق نئے شیڈول کے مطابق آل ایمپلائیز ایکشن کمیٹی پاکستان اسٹیل کے زیر انتظام آج بدھ کی سہ پہر تین بجے اسٹیل ٹائون سے ریلی نکالی جائے گی۔ جو ملیر پریس کلب پہنچ کر مظاہرے کی شکل اختیار کرے گی۔جمعہ کے روز پریس کلب میرپور خاص، پریس کلب خیرپور ناتھن شاہ، پریس کلب جوہی اور پریس کلب میرپور بٹھورو کے سامنے احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق اہم شخصیات کے سرکاری دفاتر اور رہائش گاہوں کے گھیرائو کے پلان پر بھی مشاورت جاری ہے ۔ جبکہ احتجاج کو موثر بنانے کے لیے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی قیادت سے رابطہ کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
اس حوالے سے جب اسٹیل مل سی بی اے یونین کے جنرل سیکریٹری عبدالرزاق سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ آج بدھ کو احتجاجی ریلی نکالی جائے گی جس کے شرکا پریس کلب ملیر پہنچ کر مظاہرہ کریں گے۔اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کا پتلا بھی نذر آتش کیا جائے گا۔ اتوار کے روز اسٹیل ٹائون میں ایک بڑے جلسے کا پلان ہے جس کے لیے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق سے رابطے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان سے رابطے کے بعد جلسے کے فیصلے کو حتمی شکل دی جائے گی۔
عبدالرزاق کے بقول احتجاج کا دائرہ کار بڑھانے اور اس میں شدت لانے کے لیے بہت سے آپشنز زیر غور ہیں۔ اس سلسلے میں لیبر یونینز کی آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائی جائے گی اس موقع پر مشاورت کے بعد احتجاج کے دیگر طریقہ کار کو حتمی شکل دی جائے گی۔ چونکہ اسٹیل ملز کی بحالی اور ملازمین کے ساتھ کھڑے ہونے کے وعدے عمران خان اور اسد عمر نے کئے تھے لہٰذا احتجاج کے لئے گورنر ہائوس اور اسد عمر کی رہائش گاہ کے گھیرائو کے آپشنز بھی زیر غور ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ پر بھی مشاورت جاری ہے۔ اس کے لئے پی ڈی ایم قیادت سے رابطہ کیا جائے گا۔
سندھ حکومت کی یقین دہانی کے بارے میں عبدالرزاق کا کہنا تھا کہ سارے سیاسی وعدے تھے۔ سعید غنی کی طرف سے کہا گیا تھا کہ کمیٹی بنائیں گے۔ وفاق کو لیٹر لکھیں گے اور پریس کانفرنس کریں گے۔ پریس کانفرنس تو کردی۔ باقی سب وعدے سندھ حکومت بھول چکی ہے۔ حتیٰ کہ متعلقہ وزرا ملنے کا وقت بھی نہیں دے رہے ہیں۔ حکومتی یقین دہانیوں کا نتیجہ صفر ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسٹیل مل کا تیا پانچہ کرنے میں پیپلز پارٹی بالواسطہ یا بلاواسطہ خود بھی ملوث ہے۔ ملازمین کے ساتھ ڈرامے بازی کی جارہی ہے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر ہی ملازمین نے دوبارہ سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسٹیل ملز سے وابستہ مزدور تنظیموں نے میدانی اور قانونی دونوں طرح کی جنگیں لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ آفیسرز ایسوسی ایشنز اور تمام ٹریڈ یونینز مشترکہ طور پر سندھ ہائیکورٹ میں پٹیشنز دائر کریں گی۔ ان پٹیشنز کا مسودہ تیار کیا جارہا ہے۔ آنے والے ایک دو روز میں یہ پٹیشنز ہائیکورٹ میں دائر کردی جائیں گی۔
اسٹیل ملز کے لاء ڈیپارٹمنٹ کے معاملات دیکھنے والے ایک افسر کے بقول یہ پٹیشنز مضبوط گرائونڈ پر تیار کی جارہی ہیں۔ جس میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ نجکاری کمیٹی کی جانب سے بنائی جانے والی وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے اسٹیل مل ملازمین کو فارغ کرنے کی سفارش کی تھی۔ تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس ذیلی کمیٹی کو تحلیل کردیا ہے۔ لہٰذا اب اس کمیٹی کی سفارشات کی قانونی حیثیت نہیں رہی۔ اسی طرح کسی بھی سرکاری ادارے کو بند کرنے یا ختم کرنے کے فیصلے کے بعد اس کے ملازمین کو فارغ کرنے سے پہلے لیبر کورٹ کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ اسٹیل ملز مینجمنٹ نے انچاس فیصد ملازمین کو فارغ کرنے کے بعد لیبر کورٹ سے رجوع کیا حالانکہ قانونی طور پر یہ عمل لیبر کورٹ کی اجازت کے بعد شروع ہونا تھا۔
دوسری جانب فارغ کیے جانے والے ملازمین کو جو لیٹر بھیجے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ کسی مجاز اتھارٹی کا ریفرنس یا کاغذات منسلک نہیں۔ اسی طرح وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر حماد اظہر کا کہنا ہے کہ اسٹیل ملز ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک کے تحت فارغ کیا جارہا ہے۔ گولڈن ہینڈ شیک کا عمل رضاکارانہ ہوتا ہے، جبری نہیں۔ گولڈن ہینڈ شیک لینے اور نہ لینے کا معاملہ ملازمین کی رضا پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ تاہم حکومتی عمل میں اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا اور ملازمین کی منشا معلوم کئے بغیر سب کو فارغ کرنے کے لیٹر تھمائے جارہے ہیں۔ آفیسرز ایسوسی ایشنز کے ایک رکن کے مطابق ان مضبوط گرائونڈز پر پٹیشنز دائرکرنے کے یقینا بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ بصورت دیگر احتجاج کا آپشن تو ملازمین کے پاس موجود ہے۔